کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 126
داوٴد رہبر پاكستانى ہيں ، گذشتہ 30 برسوں سے امريكہ ميں كلچر اور تقابل اديان پڑهاتے رہے ہيں ۔ مناسب ہوگا كہ مضمون ختم كرنے سے پہلے ان كے الفاظ بهى نقل كرديئے جائيں ، شايد اس طرح كے سيكولر دانشوروں كى آرا ہمارے ان روشن خيالى دانشوروں كے لئے فكرى غذا فراہم كرسكيں جو مذہب اور كلچر كے باہمى رشتے كو اہميت دينے كو تيار نہيں ہيں ۔ وہ لكھتے ہيں :
”فنونِ لطیفہ اپنى جگہ سہى ليكن كلچر صرف فنونِ لطیفہ پر منحصر نہيں ۔ كلچر زندگى كى ہانڈى پكانے كى تركيب كا نام ہے۔ پوچھنا چاہئے كہ اس كلچر ميں يا اس كلچر ميں كيا كيا مسالے پڑے ہيں ، ہر كلچر كى خاص اپنى بوباس ہوتى ہے جسے جسمانى زبان سے نہيں بلكہ ايك بے نام روحانى زبانى سے چكھا جاتا ہے۔ يہ ذائقہ لمحہ بہ لمحہ ايك پراسرار لطافت ہو ہوكرمحسوس ہوتا رہتا ہے بہت سے ہندو كباب كهانے لگے ہیں ليكن زندگى كے گهونٹ كا مزا ان كا بيشتر ہندو هى رہے گا۔ مسلمان جب شراب پئے گا تو گويا عصیاں كا خطرہ مول لے كر… كلچر كا مسالہ تو پيدا ہوتے ہى پڑنے لگتا ہے۔ ہندو بچہ جونہى پيدا ہوا۔ پنگھوڑے ميں لٹا ديا گيا، نووارد كا نام تجويز ہوا، بھگوان داس، ہرى پرشاد، گورى شنكر، برج بهوشن، سالك رام، اوما كمارى، كملا ديوى، مسلمان بچہ متولد ہوا تو نام تجويز ہوا دين محمد، خدا بخش، يا غوث على يا غلام رسول خان يا غلام حسين يا فاطمہ، زينب يا صفيہ۔ نام سے ايك پورى روايت گھٹى ميں پڑ گئى اور پهر نمسكار اور السلام عليكم كے فرق پر غور كيجئے عليك سليك كى ان تركيبوں كے پيچھے اپنے اپنے عالم ہيں ۔ “ (كلچر كے روحانى عناصر: ص 20)
اس پورى بحث كو سميٹتے ہوئے ہم بالآخر اس بنيادى سوال كى طرف لوٹتے ہيں كہ مذہب اور ثقافت كا باہمى تعلق كياہے؟ ہمارے خيال ميں دين ايك برتر تصور ہے جو ثقافت كى حدود اور اس كے دائروں كا تعین كرتا ہے۔ اس اعتبار سے مذہب كا منصب ثقافت گرى بهى ہے۔ اسلام محض ثقافت نہيں بلكہ ’دينى ثقافت‘ كا تصور پيش كرتا ہے جو دين و دنيا كے تمام اُمور كااحاطہ كرتى ہے۔ مذہب كو ثقافت كے مقابلے ميں برتر مقام دينے كى بنيادى و جہ اس كا احكامِ الٰہی پر مبنى ہونا ہے۔ علاوہ ازيں تاريخى اعتبار سے ديكها جائے تومذہبى تعلیمات كا ظہور پہلے ہوا، ثقافتى مظاہر بعد ميں سامنے آئے۔ ايك مسلمان كے عقیدے كے مطابق انسان نے اپنى زندگى كا آغاز خدائى حكم سے ايك نبى یعنى حضرت آدم علیہ السلام كى قيادت ميں كيا۔ حقيقت يہ ہے كہ انسانى معاشرے كى ابتدا ميں مذہب و ثقافت كا وہ فرق ہى نہ تها جو آج سمجھا جاتاہے۔ آج ہم جن باتوں كو خالصتاً ثقافتى سرگرمياں سمجھتے ہيں ، زمانہٴ قديم ميں يہ كسى نہ كسى قوم كى مذہبى اقدار پر مبنى تهيں ۔