کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 124
ميں اعلىٰ درجے كى اخلاقى روح پهونكنے اور كسى بلند نصب العین كے ساتھ محبت اور گرويدگى پيدا كرنے كى كوشش كى جاتى ہے۔ غرض ہر ايك قوم كا تہوار منانے كاطریقہ گويا ايك پيمانہ ہے جس سے آپ اس كے مزاج اور اس كے حوصلوں اور امنگوں كو اعلانيہ ناپ كر ديكھ سكتے ہيں ۔ اس طرح اخلاقى اعتبار سے كوئى قوم جتنى پست ہوگى وہ اپنے تہواروں ميں اتنے ہى مكروہ مناظر پيش كرے گى۔ جتنى بلنداخلاقى روح كسى قوم ميں ہوگى اتنے ہى اس كے تہوار اخلاقى اعتبار سے مہذب اور پاكيزہ ہوں گے۔ (نشرى تقريريں : صفحہ 85)
جب مسلمان ديگر اقوام كے تہواروں كو اپنے ’قومى تہوار‘ سمجھ كر منانا شروع كرديں تو اس كا لازمى نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مسلمانوں كى جديد نسل كى اسلامى تہواروں (عيدين) سے جذباتى وابستگى ماند پڑ جاتى ہے اور ان كا تہوار منانے كا فلسفہ ہى بدل جاتا ہے۔ جنورى 2004ء كے دوسرے ہفتے ميں انگريزى روزنامہ ’ڈان‘ ميں ايك خاتون مصنفہ كا ’بسنت‘ كے موضوع پر مفصل مضمون شائع ہوا جس ميں موصوفہ نے ’بسنت‘ كى رونقوں كوبے حد مبالغہ انگيز انداز ميں بيان كرتے ہوئے اسے لاہوريوں كا سب سے عظيم تہوار قرار ديا ۔ انہوں نے اپنے مضمون ميں قارئين كى اطلاع كے لئے يہ بهى تحرير فرمايا كہ ان كے دو بيٹے اس وقت امريكہ ميں زيرتعليم ہيں ، وہ عيدالفطر اور عيدالاضحى كے مواقع پر پاكستان آئيں يا نہ آئيں ، مگر يہ ممكن نہيں ہے كہ وہ بسنت كے تہوار كو منانے كے لئے نہ آئيں ۔ بسنت منانے كے لئے وہ ايك مہینہ پہلے ہى پاكستان آجاتے ہيں ۔ موصوفہ كا جس طبقہ سے تعلق ہے، اس ميں اسلامى تہواروں سے عدم رغبتى كا رجحان بڑھ رہا ہے اور غير مسلموں كى تقريبات ميں دلچسپى روز بروز زيادہ ہورہى ہے۔ ویلنٹائن ڈے جيسے شرمناك دن كى مثال ہمارے سامنے ہے۔
پاكستان ميں ثقافت اورمذہب كے درميان تعلق كى بنياد ؟
ڈاكٹر جميل جالبى صاحب سابق وائس چانسلر جامعہ كراچى نے اسى حقيقت كا پاكستانى قوم كو ادراك كرانے كے لئے يہ سنہرى الفاظ تحرير كئے ہيں :
”مذہب كلچر كى سطح پر آئے بغير ايك علم كتابى ہے، فلسفہ اخلاق كا آدرش ہے اور بس۔ يہ كبهى نہيں ہوا كہ زندگى ميں عملاً برتنے كے بعد مذہب كے آدرش نظام كى آدرشى شكل باقى رہى ہو۔ زندگى سے پورا رشتہ ناتا قائم ركهنے كے لئے مذہب كى يہى تہذيبى شكل اصلى و حقيقى شكل ہے۔ “
(پاكستانى كلچر: صفحہ 134)