کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 123
”ہر قوم اپنى ملكى و قومى روايت كے مطابق كسى خاص اہم واقعہ كوبنياد قرار دے كر اجتماع كى ايك صورت پيدا كرلیتى ہے۔ جس وقت تك كسى قوم ميں اجتماعى روح قائم رہتى ہے اور اجتماعیت كے فائدوں كا احساس قوم كے افراد ميں موجود ہوتا ہے اس وقت تك تو اس قسم كے اجتماعات ميں بهى افاديت كا پہلو غالب رہتا ہے۔ افراد و قوم اكٹھے ہوكر اپنى قومى زندگى كے اس اہم واقعہ كى ياد تازہ كركے جس كى ياد كى بنياد پر كسى اہم عملى مفید كارنامے كى وجہ سے ہر دن تقريب كى صورت ميں منايا جارہا ہے، اپنے دلوں ميں ايك نياجوش پيدا كرليتے ہيں ۔“(اسلامى تقريبات، از مولانا عنايت اللہ وارثى: صفحہ 165) سوال پيدا ہوتا ہے كہ بسنت كا نام نہاد تہوار ہمارے كس قومى كارنامے كى ياد ميں منايا جاتاہے اور يہ كيسا قومى تہوار ہے جوقوم كے لئے خوشى كا باعث بننے كى بجائے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ يہ ہمارے معاشرے ميں اجتماعيت كو فروغ دينے كى بجائے انتشار پهيلا رہا ہے۔ مولانا عنايت اللہ وارثى صاحب ايك تہوار كے پس پشت بنيادى تصور كى وضاحت كرتے ہوئے مزيد لكھتے ہيں : ”كسى دن كو تقريب كى صورت ميں منانے والے حضرات خواہ كسى صورت ميں منائيں ۔ ان كا بنيادى تصور يہى ہوتا ہے كہ يہ دن وہى دن ہے جس دن ميں فلاں ناقابل فراموش واقعہ رونما ہوا جس كو يادگار كى صورت قرار دے كر ہر سال منانا اور اس كى ياد كوتازہ ركهنا ضرورى ہے۔ كيونكہ اس دن رونما ہونے والے واقعہ نے اس دن كو قومى سياسى، دينى اور اعتقادى يا كسى بهى انفرادى يا اجتماعى حيثيت سے يادگار بننے كى خصوصیت يا شرف و اعزاز بخش ديا ہے۔ اس لئے اسے ياد ركهنا ہى ارادت ياعقیدت يا وفادارى كا ثبوت اور فخر كا سرمايہ ہے اور اسے بصورتِ يادگار منانے رہنے ہى سے اصل واقعہ كاتعلق اس خاص دن كے ساتھ قائم رہ سكتا ہے جس كا قائم رہناناگزير ہے۔ گويا تقريب كى بناد دراصل عمل ہى ہے۔“ سيد ابوالاعلىٰ مودودى كسى قوم كے تہوار منانے كے انداز اور اس كے اخلاقى نصب العين كے مابين تعلق پر روشنى ڈالتے ہوئے فرماتے ہيں : ”تہوار منانے كے طريقے دنيا كى مختلف قوموں ميں بے شمار ہيں ۔ كچھ ميں صرف كهيل كود اور راگ رنگ اور لطف و تفريح تك ہى تہوار محدود رہتا ہے۔ كہيں تفريحات تہذيب كى حد سے گزر كر فسق و فجور اور ناشائستگى كى حد تك پہنچ جاتى ہيں ۔ كہيں مہذب تفريحات كے ساتھ كچھ سنجيده مراسم بهى ادا كئے جاتے ہيں اور كہيں ان اجتماعى تقريبات سے فائدہ اٹها كر لوگوں