کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 122
ميں ہندوانہ كلچركے جراثيم باقى ہيں تو محض بسنت كو قومى تہوار كے طور پر منانے پر اعتراض وارد كيوں كيا جاتاہے۔ ہمارے خيال ميں اس طرح كا استدلال محض كج بحثى ہے۔ انفرادى سطح پر مختلف گهرانوں كى طرف سے بعض شادى بياہ كى رسومات كى پاسدارى اور قومى سطح پر اجتماعى انداز ميں ايك تہوار منانے ميں اصولى طور پر فرق ہے۔ يہاں يہ بات بهى پيش نظر رہے كہ شادى بياہ كى تقريبات ميں نكاح اور اسلامى كلچر كے ديگر عناصر بهى شامل ہوتے ہيں ۔ اور بہت سے مسلمان گهرانے ايسے ہيں جو ان رسومات كى پابندى كو ضرورى نہيں سمجهتے، نہ ہى كوئى ان انفرادى رسومات كو تہوار كا مقام ديتا ہے۔ تہوار درحقيقت ان رسومات كا مجموعہ ہوتا ہے جسے پورا معاشرہ پسنديدگى كى نگاہ سے دیكھتا ہے اور اسے مذہب سمجھ كر ادا كرتا ہے۔ بسنت كو پاكستانى قوم كا ’قومى تہوار‘ كہنے والوں كو تہوار كے بنيادى فلسفہ كى حقيقت كا شايد علم نہيں ہے۔ لاہور جو ’بسنت‘كا اصل گڑھ ہے، اس ميں بهى لاكهوں افراد ايسے ہيں جو نہ صرف بسنت سے الگ تھلگ رہتے ہيں بلكہ اسے غير اسلامى اور ہندوانہ تہوار سمجھتے ہيں ۔ پنجاب كے ديگر شہروں ميں ’بسنت‘ كوابهى تك مقبوليت كا وہ درجہ نہيں مل سكا ہے۔ پهر ہم يہ بات كيوں بهول جاتے ہيں كہ جب ہندو كہتے ہيں كہ ’بسنت‘ ہمارا مذہبى تہوار ہے جسے پاكستان كے مسلمان جوش وخروش سے مناتے ہيں تو پهر ہميں اسے ہندوانہ تہوار سمجھنے ميں تامل كيوں كر ہے۔ بهارت كى انتہاپسند جماعت شيوسينا كے راہنما بال ٹهاكرے نے بارہا بسنت كے موقع پر لاہوريوں كے متعلق ان خيالات كا اظہار كيا ہے۔ جب ہم كسى رسم كو اجتماعى تہوار كے طور پر منائيں گے تو يہ بات اسلام كے عمرانى فلسفے كى اجتماعيت سے متصادم ہوگى۔ ہمارے دانشو روں كى فكرى تهى دامنى اور تخلیقى قوت كى كمى بهى كم عبرت آموز نہيں ہے۔ وہ اس قابل تونہيں ہيں كہ اسلامى اقدار كى روشنى ميں اسلامى كلچر كے تقاضوں كے مطابق كسى اجتماعى تقريب كا تصور پيش كريں ، البتہ وہ بسنت جيسے ہندوانہ تہوار كو اپنا ’قومى تہوار‘ بنانے كے لئے اپنى تحريرى و تقريرى صلاحيتوں كا خوب استعمال كرتے ہيں ۔ہر قوم كے تہوار ايك مخصوص پس منظر ركهتے ہيں جو اس قوم كے اجتماعى تہذيبى شعور ميں رچا بسا ہوا ہوتا ہے۔ بے مقصد تفريح كسى تہوار كى بنياد نہيں ہوتى۔ مولانا عنايت اللہ وارثى قومى تقريبات كى بنياد پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے لكھتے ہيں :