کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 121
ميں پيدا ہو چاہے وہ ہندومت كى تعلیمات سے مكمل انكار كيوں نہ كردے۔ اسلام اس طرح كے افراد كو ايك لمحہ كے لئے بهى اپنے دامن ميں قبول نہيں كرتا۔ جواہر لال نہرو ايك جديد ذہن ركهنے والے اشتراكيت پسند ہندو تهے۔ وہ اپنى كتاب ’ميرى كہانى‘ ميں ايك جگہ لكھتے ہيں : ”ہندو مت كے دائرے ميں بے حد مختلف اور متضاد خيالات و رسوم داخل ہيں ۔ اكثر يہ بهى كہا جاتا ہے كہ ہندو مت پر صحيح معنوں ميں مذہب كا اطلاق ہى نہيں ہوتا۔ ممكن ہے ايك شخص كھلم كهلا خدا كا منكر ہو ليكن كوئى يہ نہيں كہہ سكتا كہ يہ شخص ہندو نہيں رہا۔ جولوگ ہندو گهرانوں ميں پيدا ہوئے ہيں وہ چاہے كتنى ہى كوشش كريں ، ہندو مت ان كا پیچھا نہيں چهوڑتا۔ ميں برہمن پيداہوا تها اور برہمن ہى سمجھا جاتا ہوں ، چاہے مذہبى اور سماجى رسموں كے متعلق ميرے خيالات اوراعمال كچھ ہى ہوں ۔“ ( ’ہندو كياہے؟‘ نوائے وقت ميگزين، 7؍ مارچ 2004ء) اسلام لانے كے بعد برصغیر پاك و ہند كے مسلمانوں ميں كس درجہ ميں تہذيبى تبديلياں رونما ہوئيں اور كون كون سى تہذيبى رسومات تهيں جن سے وہ جہالت يا ديگر وجوہات كى بنا پر چمٹے رہے، اور اب تك برصغیر كے مسلمانوں كى تہذيبى و ثقافتى زندگى پر ہندو تہذيب كے كيا كيا اثرات باقى ہيں ؟ يہ اور اس طرح كے ديگر عملى سوالات كاجواب موٴرخين نے اپنے تئيں دينے كى كوشش كى ہے اور بعض سوالات شايد ابهى تك تشنہ تحقیق ہيں ۔ اس وقت ہمارے پيش نظر اہم ترين سوال يہ ہے كہ پاكستان جيسى اسلامى نظرياتى مملكت جس كا قيام ہى ’اسلامى ثقافت كى تجربہ گاہ‘ كے طور پر عمل ميں لايا گياتها، ميں خالص اسلامى كلچر كو فروغ دينے كى ضرورت ہے يا نہيں ؟ جو شخص اس كى ضرورت سے انكار كرتا ہے، اس سے ہميں بحث نہيں كرنا چاہئے، مگر وہ حضرات جو اس ضرورت كى اہميت كا انكار نہيں كرتے، ان كے سوچنے كى بات ہے كہ كيا پاكستان ميں ہندو كلچر كے نماياں ترين مظہر تہواروں سے ثقافتى شغف برقرار ركهتے ہوئے كيا خالص اسلامى كلچر كو پروان چڑهايا جاسكتا ہے؟ ہمارے خيال ميں يہ بات بے حد مشكل ہے!! پاكستانى كلچرپر تبصرہ اس حقيقت سے انكار ممكن نہيں ہے كہ برصغیر كے مسلمانوں كى شادى بياہ كى رسومات اور ديگر تقريبات ميں ہندو كلچر كا كچھ نہ كچھ رنگ اب بهى باقى ہے۔ ان فرسودہ رسومات كو ترك كرنے كى بجائے بعض لوگ ان سے يوں استدلال بهى كرتے ہيں كہ جب ديگر باتوں