کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 118
كے متعلق ’كنفیوژن‘ كا شكار ہيں ۔ سيكولر اور اشتراكيت پسند ملاحدہ كى ہى محض بات ہوتى تو ہم شايد اس موضوع پر استدلال پيش كرنا تضیع اوقات سمجھتے كيونكہ جب تك ان كے سرچشمہ ہائے فكر نہيں بدلتے، ان سے يہ توقع كرنا كہ وہ اس طرح كے دلائل كو درخور اعتنا سمجھیں گے، ايك عبث اور فضول كاوش ہوگى۔ ليكن ہم جانتے ہيں كہ ہمارے ہاں بہت سے فاضل دانشور ايسے بهى ہيں جو اسلام پسندى كو وجہ ِافتخار سمجهتے ہيں ، مگر جب مذہب اور كلچر پر بات ہو تو ان كے خيالات بهى وہى ہوتے ہيں جن كا ذكر مذہب بيزار دانشور كرتے ہيں ۔ ايسے ہى بعض اسلام پسند دانشور بسنت جيسے ہندوانہ تہوار كو ’قومى ثقافتى تہوار‘ قرار ديتے ہيں اور اپنى اس رائے كے مضمرات پر ان كى توجہ ہرگز نہيں ہے۔ اسے ہم اپنى بدقسمتى قرار ديں يا پاكستانى قوم كے علمى و ثقافتى زوال كى علامت قرار ديں كہ آج ہميں اپنے مسلمان دانشوروں سے يہ بات تسليم كرانے كے لئے تقريباً اس طرح كا طرزِ استدلال اختيار كرنا پڑ رہا ہے، جس طرح كے طرزِاستدلال كى 1930ء اور 1940ء كى دہائى ميں حكيم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور بابائے قوم محمد على جناح كو دو قومى نظريہ كى حقيقت سمجھانے كى ضرورت پيش آئى تهى۔ علامہ اقبال نے 1908ء سے لے كر 1938ء تك اپنے اشعار، خطبات اور مضامين ميں مسلم ملت كے جن منفرد اوصاف كا باربار تذكرہ فرمايا، اس سے ہر شخص واقف ہے۔ ان كے كلامِ بلاغت نظام ميں يہ مصرعہ تو اب ضرب المثل كى حقيقت اختيار كرگيا ہے ع خاص ہے تركيب ميں قومِ رسولِ ہاشمى! اصل مصيبت يہ ہے كہ آج كے دانشوروں كو ملت ِ اسلاميہ كى يہى ’خاص تركيب‘ ہى سمجھ ميں نہيں آئى۔ ورنہ وہ مذہب و ثقافت كے فلسفہ كے متعلق ابہام يا كنفيوژن كاشكار كبهى نہ ہوتے۔ قائداعظم محمد على جناح نے جب برصغير كى ملت ِاسلاميہ كے وكيل كى حيثيت سے مسلمانوں كے لئے الگ وطن كا مقدمہ لڑنے كى تيارياں كيں تو سب سے بڑى ركاوٹ ان كے سامنے يہى تهى كہ وہ كانگريس كے متحدہ قوميت اور متحدہ ثقافت كے اس فريب انگيز فلسفہ پر كارى ضرب كس طرح لگائيں جس كى رو سے وہ دو مذاہب اور ايك ثقافت كى بات كرتے تهے۔ كانگريسى ليڈر بار بار كهتے تهے كہ ايك وطن ميں رہنے والے مختلف مذاہب كے لوگوں كى ثقافت مشتركہ اور ايك ہواكرتى ہے، لہٰذا محض مذاہب كے فرق كى بنا پر دو الگ رياستوں كا قيام بلا جواز ہے۔ 20 مارچ 1940ء كو مہاتما گاندهى نے ايك جلسہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا :