کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 113
(4) بسنت كے موقع پر جس قدر انسانى جانوں كا ضياع ہوتا ہے، اور جس طرح بجلى باربار جانے سے لاكهوں شہريوں كى زندگى اجيرن بنا دى جاتى ہے اور اس قدرہلڑبازى مچائى جاتى ہے كہ الامان! يہ مخلوقِ خدا كے لئے ايك روگ اور عذاب سے كم نہيں ۔ چوہدرى نذير صاحب جيسے دانشور اسے نجانے مخلوقِ خدا كے لئے خوشى اور مسرت كاموقع كيونكر سمجهتے ہيں ۔ دوسروں كى جانوں كو عذاب ميں ڈال كر خوشى كے موقع حاصل كرنا كہاں تك درست ہے؟
ہندومت اور اسلام كا ’تہوار‘ كا تصور اور فلسفہ جدا جدا ہے۔ اگر عالمى تہذيبوں كا جائزہ ليا جائے تو ہندوتہذيب ميں ’تہوار‘ منانے كا رجحان غالباً ديگر تمام تہذيبوں سے زيادہ ہے۔ اس كى شايد ايك وجہ ہندو مذہب كا مخصوص فلسفہ عبادت ہے۔ رسومات اور اوہام كو جس طرح ہندو مذہب ميں یكجا كرديا گيا ہے، شايد ہى دنياكا كوئى مذہب يہ امتياز ركهتا ہو۔ قديم آريہ سال كو چہ موسموں ميں تقسيم كرتے تهے، اس طرح دو مہینوں كا موسم بناتے تهے۔ سنسكرت زبان كے مشہور شاعر كالى داس نے ’رتوسنگھار‘ كے نام سے ايك كتاب لكھى ہے جس ميں ان چہ موسموں كى كیفیت بيان كى گئى ہے۔ كالى داس كى ايك نظم سے معلوم ہوتاہے كہ بسنت رت آتى ہے تو ندى نالے جو جاڑے كے موسم ميں سوئے رہتے ہيں يكايك جاگ اٹھتے ہيں ۔ آم پر بور ہوتا ہے، عشق كا ديوتا مدن بھٹكے دلوں كا شكار كرتا پهرتا ہے۔ (’بسنت؛ لاہور كا ثقافتى تہوار‘ ص :12) ہندووٴں كے موسموں كے اعتبار سے تہوار منانے كے پیچھے ان كى مذہبى رسومات كارفرما ہيں ۔ دراصل برہمنوں نے ہندو مذہب ميں تہواروں كا جال بچھا كر اپنى مذہبى پیشوائيت كو استحكام دينے كى ہر ممكن صورت پيدا كى۔بسنت كے موسم كے متعلق فرہنگ ِآصفيہ كے يہ الفاظ ملاحظہ كيجئے:
”اہل ہند اس موسم كو مبارك اور اچها سمجھ كر نيك شگون كے واسطے اپنے اپنے ديوى، ديوتاوٴں اور اوتاروں كے استہانوں ميں مندروں پر ان كے رجهانے كے لئے بہ تقاضائے موسم سرسوں كے پهولوں كے گڑوے بنا كر گاتے، بجاتے، لے جاتے اور اس میلے كو بسنت كہتے ہيں ، بلكہ يہى وجہ ہے كہ زرد رنگ كو اس سے مناسبت دينے لگے۔“
اسلام ميں موسموں كو مذہبى اعتبار سے نہ اس طرح تقسيم كيا گيا ہے اور نہ ہى ان كى بنياد پر تہوار مقرر كئے گئے ہيں ۔ بلا شبہ اسلام ميں بعض ايام كو زيادہ مقدس قرار ديا گيا ہے۔ مثلاً عيدين، شب ِقدر وغيرہ۔ مگر اسلامى عيدين قمرى سال كى وجہ سے ہر موسم ميں آتى ہيں ۔ ايك