کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 112
فرق كو سمجھنے كى ضرورت ہى محسوس نہيں كى۔ ثقافت كا تعلق كسى علاقے يا خطے پر رہنے والے لوگوں كے رہن سہن، رسوم و رواج اور طرزِ معاشرت سے ہوتا ہے اور ايك خاص خطہ كے رہنے والے لوگ صديوں سے ايك خاص طرزِ زندگى اختيار كئے ہوئے ہيں چنانچہ ان كى ثقافت، ان كى سماجى، سياسى، معاشرتى اقدار اورجذبوں كى امين ہوتى ہے۔ علاقائى، مذہبى يا ثقافتى تہوار اور ميلے وغيرہ مخلوق خدا كو خوشى اور مسرت كے مواقع فراہم كرتے ہيں ۔“(ص:24)
نذير احمد چوہدرى صاحب نے جن خيالات كا اظہار كيا ہے يہ محض مجرد فلسفہ ہے، برصغیر كے مسلم معاشرے پر اس كا اطلاق نہيں ہوتا۔ اس ضمن ميں درج ذيل تاريخى حقائق كونظر انداز نہيں كيا جاسكتا :
(1) يہ بات اُصولى طور پر درست نہيں ہے كہ كسى بهى علاقہ كى ثقافت كا مذہب سے كوئى ٹكراوٴ نہيں ہوتا۔ برصغیر كے ہندو معاشرے ميں سينكڑوں ايسى باتيں تهيں جو مسلمانوں كى تہذيب سے متصادم تهيں ، لہٰذا مسلمانوں نے ان كو ردّكر ديا۔ ہندو گائے كا پیشاب پیتے ہيں اور گوبر كهاتے ہيں ، ان كے ہاں بت پرستى ان كى ثقافت كا حصہ ہے۔ كيا مسلمانوں نے ان باتوں كو محض علاقائى ثقافت سمجھ كر قبول كرليا؟ اسلام علاقائى ثقافت كو بعینہ قبول نہيں كرليتا، بلكہ اس كى اصلاح كرتا ہے۔
(2)مسلمانوں كا رہن سہن اور طرزِ معاشرت، ہندووٴں سے واضح طور پر مختلف رہا ہے، اور يہ دو قومى نظريہ كى اساس بهى ہے۔ لاہور جيسے شہروں ميں بهى عام طور پر مسلمانوں اور ہندووٴں كے محلے الگ الگ تهے۔ اناركلى بازار ميں مسلمان اور ہندو مل كر خريدوفروخت كرتے تهے، مگر دونوں كى شكل و صورت اور لباس سے بخوبى اندازہ لگايا جاسكتا تها كہ ان ميں كون ہندو ہے اور كون مسلمان؟
(3) بسنت اور پتنگ بازى كاتعلق رہن سہن اور طرزِ معاشرت سے نہيں ۔ بسنت بنيادى طور پر ايك ہندوانہ تہوار ہے جس كا اعتراف انہوں نے خود ہى اپنى كتاب ميں ان الفاظ ميں كيا ہے:”بسنت بنيادى طور پر ہندووٴں كا تہوار ہے مگر مسلمانوں نے اس ميں دلچسپى لينا شروع كردى۔“ (ص:18) جب وہ خود يہ اعتراف كرتے ہيں تو پهر بسنت كے مخالف لوگوں كى سوچ كو ’اندوہناك‘كيوں كر قرار ديتے ہيں ۔ ان كى سوچ كا يہ افسوسناك پہلو قابل فہم نہيں ہے۔