کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 111
فكرى تشخص كو اُبهارتا ہے، اس لئے اسلام نے واضح طور پر اعلان كرديا كہ مسلمانوں كے تہوار عيدين ہے۔ حديث ِپاك ميں ارشاد ہوتا ہے كہ ”ہر قوم كى اپنى عيديں ہيں ، اور ہمارى عيد، عيدالفطر اور عيد الاضحى ہيں ۔“ يہى دو عيديں مسلمانوں كے تہذيبى تہوار بهى ہيں ۔ اسلام سے پہلے عرب معاشرے ميں بہت سے تہوار اور ميلے پائے جاتے تهے، ان ميں سے ايك بهى ايسا نہيں جسے اسلامى ثقافت نے ’بے ضرر‘ سمجھ كر گود لے ليا ہو۔
اسلام سے قبل اہل عرب عكاظ كے میلے ميں بہت جوش و خروش سے شريك ہوتے تهے۔ اہل مكہ كے لئے تو يہ تجارت كا بهى ايك عظيم الشان موقع عطا كرتا تها۔ يہى وہ ميلہ تها جس پر شاعروں كے كلام كے مقابلے ہوتے تهے اور سات منتخب شعرا كا كلام اس ميلے ميں آويزاں كيا جاتا تها، مگر فتح مكہ كے بعد عكاظ ميلے نے حج كے موسم كى تجارت كى شكل اختيار كرلى چنانچہ اس ميں بے مقصد لہوولعب اور بے حيائى كى رسومات خود بخود ختم ہوگئيں ۔ اس طرح كے ميلوں كو ترك كرنے كى دوسرى اہم وجہ يہ ہے كہ يہ خدا كى ياد سے غافل كرتے ہيں ۔
مسلمانوں نے ايران كو فتح كيا، جو اس زمانے ميں تہذيبى اورثقافتى طور پر عربوں كے مقابلے ميں بہت ترقى يافتہ تها، مگر مسلمان ان كى تہذيب سے مرعوب نہ ہوئے بلكہ ايران كو اسلامى تہذيب كے سانچے ميں ڈهالا۔ جشن نوروز ہزاروں سال سے ايرانى تہذيب كااہم تہوار سمجھا جاتا تها، مگر مسلمانوں نے اس كو ترك كرديا۔ سپين پر مسلمانوں نے آٹھ سو برس تك حكومت كى ، وہاں كى آبادى كى اكثريت عیسائى تهى، مگر كسى مسلمان حكمران نے كرسمس كا تہوار نہيں منايا۔
ہمارے ہاں جو لوگ بسنت كو ايك ثقافتى تہوار كى حيثيت سے منانے ميں كوئى عیب نہيں ديكهتے، انہيں چاہئے كہ وہ ثقافت اور مذہب كے درميان تعلق كو اس انداز ميں ديكھيں جس طرح كہ اسلام چاہتا ہے۔ وہ تہواروں كو منانے كے متعلق اسلام كے تصور كو نظر انداز كرديتے ہيں ۔
نذيراحمد چوہدرى صاحب اپنى كتاب ’بسنت؛ لاہور كا ثقافتى تہوار‘ ميں لكھتے ہيں :
”بعض لوگ معترض ہيں كہ بسنت كا تہوار مذہبى طور پر ’حرام‘ ہے حالانكہ كسى بهى علاقہ كى ثقافت كا مذہب سے كوئى ٹكراوٴ نہيں ہوتا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑى مشكل اور ہمارى سوچ كا اندوہناك پہلو يہ ہے كہ ہم نے آج تك مذہب اور ثقافت ميں پائے جانے والے بنيادى