کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 110
مكروہ اور حرام ميں تقسيم كرتا ہے۔ ايسے افعال جن كے كرنے كا حكم ديا گيا ہو، اور نہ كئے جائيں ، وہ اسلامى تصور كے مطابق گناہ كا درجہ ركهتے ہيں ۔ مثلاً نماز، روزہ، زكوٰة، سچ بولنا، انصاف كرنا، رزقِ حلال وغيرہ۔ ممنوعہ افعال بعض اوقات قابل ِتعزير بهى ہوتے ہيں ، مثلاً چورى، زنا وغيرہ۔ اسلام ايك ايسى ثقافت كو پروان چڑهتے دیكھنا چاہتا ہے جواس كے اپنے افكار و تعلیمات كے مطابق ہو۔ اسلام كا خوشى اور غمى منانے كا بهى اپنا تصور ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں كو اس قدر باحمیت دیكھنا چاہتا ہے كہ وہ سماجى اعمال كے معمولى دائروں ميں بهى دوسرى قوموں كى مشابہت نہ كريں ۔ كوئى ايسا كام جو بظاہر گناہ نہ ہو مگر اس كے كرنے سے دوسرى قوموں سے مشابہت كا پہلو نكلتا ہو،اسلام ايسے افعال سے مسلمانوں كو بچنے كى تلقین كرتا ہے۔ اسلام كا حرام وحلال، گناہ و ثواب، جائز و ناجائز، مباح و مستحب كا ايك جامع تصور ہے جو اسے ديگر اديان سے امتياز عطا كرتا ہے۔ اسلام ايك ايسا مذہب ہے جو ثقافت كو اپنے اندر ضم كرنا چاہتا ہے۔ اسلام ميں مذہب اور ثقافت كا تعلق بے حد واضح ہے، يہاں مذہب كو ايك برتر خدائى حكم كى حيثيت سے ہر اس ثقافتى عمل كو مسترد كرنے كا اختيار ہے جو اس كے بنيادى تصور سے متصادم ہو۔ اسلامى تصور كے مطابق مذہب كلچر كا محض ايك جزو نہيں ہے، بلكہ يہ ايك ايسا برتر نظام ہے جو ثقافت كو اپنے تقاضوں كے مطابق ڈهالتا اور تشكيل ٭ديتا ہے!!
اسلام اور تہوار
اسلام كا آغاز عرب معاشرے سے ہوا۔ عرب معاشرے كى بہت سى اقدار اور رسومات ايسى تهيں جسے اسلام نے یكسر مسترد كرديا، چند ايك سماجى اقدار ايسى تهيں جنہيں انسانى معاشرے كے لئے بے ضرر يا فائدہ مند ركهتے ہوئے انہيں برقرار ركها۔ يہاں واضح كرديا جائے كہ تہواروں كا معاملہ ان برقرار ركهى جانے والى فہرست ميں شامل نہيں تها۔ تہواروں كو منانے كا معاملہ كسى بهى مذہب يا تہذيب كے لئے بنيادى فكرى معاملہ ہے، يہ كسى بهى قوم كے
٭ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام علاقائی کے بجائے مذہب کا عالمی تصور رکھتا ہے جس کی اپنی مستحکم روایات ہیں او ران میں ہرعلاقے کی روایات کو محدود دائرے او راسلام کے فلسفہ حلت وحرمت کے تحت ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔اسلام کی اپنی روایات اس قدر مستحکم ہیں کہ ان کی بنا پر دنیا میں کہیں بھی بسنے والا مسلمان چند تہذیبی مظاہر سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ … مدیر