کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 108
يورپ ميں كلچر كو مذہب پر برترى حاصل ہے! مذہب اور كلچر٭كا باہمى تعلق كيا ہے؟ اسكا جواب مختلف تہذيبى پس منظر ركهنے والے افراد مختلف ديں گے، ايك يورپ كا جديد ذہن ركهنے والا شخص مذہب كو كلچر كا ايك عنصر يا جز سمجھتا ہے، اس كے نزديك كلچر ايك برتر شے ہے۔ اگر كسى موقع پر كلچر اور مذہب كے درميان اختلاف يا تصادم رونما ہوجائے، تو اہل مغرب مذہب كو نظر انداز كرديں گے اور كلچر كو اس پر ترجيح ديں گے۔ يورپ كے لوگوں كى اكثريت اب بهى عيسائيت كو اپنا مذہب قرار ديتى ہے مگر يورپى معاشرے ميں بہت سے قوانين ، اقدار اور سماجى ادارے ايسے ہيں جن كا وجود عيسائيت كى تعليمات سے لگا نہيں كهاتا مگر چونكہ عرصہ قديم سے يہ اس معاشرے ميں موجود ہيں لہٰذا وہ انہيں اپنے كلچر كا حصہ سمجهتے ہوئے خيرباد كہنے كو تيار نہيں ۔ ٭ جسم فروشى عيسائيت ميں بهى ويسا ہى گناہ ہے جيسا كہ اسلام ميں ، مگر يورپ و امريكہ ميں Prostitutionكو ايك مستقل سماجى ادارہ كى حيثيت حاصل ہے۔ وہاں كے دانشور اسے تمام تر قانونى تحفظ دينے كى وكالت كرتے ہيں ۔ ايك طوائف ان كے نزديك سوشل وركر ہے۔ ان كے خيال ميں جسم فروشى كا قديم ہونا بذاتِ خود اس كے جواز كے لئے كافى ہے۔ ٭ شراب نوشى اور بے نكاحى جنسى تعلق ان كے مذہب ميں جائز نہيں ہے، مگر اب ان كے كلچر كا حصہ بن چكا ہے، اسى لئے ايك يورپى ذہن ان سے بغير كسى احساسِ گناہ كے شغف ركهتا ہے۔ يورپى تہذيب و تمدن، بودو باش اور رہن سہن، خوشى اور تفريح منانے كے بہت سے طور طريقے عیسائيت كى بنيادى تعلیمات كے منافى ہيں ، مگر وہ ان پر جان چهڑكتے ہيں اور بے حد پرجوش طريقے سے ان كا دفاع كرتے ہيں ۔ ان كى حكومتيں اگر چاہيں ، ان پر قدغن عائد كرديں تو وہ ان كے ردِعمل كا سامنا نہيں كرسكيں گى۔ ٭ ویلنٹائن ڈے كى ہر سال چرچ كى طرف سے مخالفت كى جاتى ہے اور اسے جنسى آوارگى اور بے حيائى كا فعل قرار دے كر مذمت كى جاتى ہے، مگر اس كو منانے والے ثقافت سمجھ كر مناتے ہيں ۔ اس سارے استدلال كا لب ِلباب يہ ہے كہ جديد مغرب كلچر كے مقابلے ميں مذہب كو ايك تابع ادارے (Subservient) كے طور پر دیكھتا ہے۔ ان كے ہاں كلچر كل كا درجہ ركھتى ہے او رمذہب محض اس كا ادنىٰ سا جز ہے۔ان كے سيكولر دانشور تو مذہب كو اوہام كے مجموعہ سے زيادہ اہميت دينے كو تيار نہيں ہيں ۔ ٭ ’کلچر‘ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ ’’کلچراس کل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد، علوم اور اخلاقیات، معاملات اور معاشرت، فنون و ہنر، رسم و رواج، افعال ارادی اور قانون، صرفِ اوقات اور وہ ساری عادتیں شامل ہیں جن کا انسان معاشرے کے ایک رکن کی حیثیت سے اکتساب کرتا ہے اور جن کے برتنے سے معاشرے کے معاشرے کے متضاد و مختلف افراد اور طبقوں میں اشتراک و مماثلت، وحدت اور یکجہتی پیدا ہوجاتی ہے جن کے ذریعے انسان کو وحشیانہ پن اور انسانیت میں تمیز پیدا ہوجاتی ہے۔ کلچر میں زندگی کے مختلف مشاغل، ہنر اور علوم و فنون کو اعلیٰ درجہ پرپہنچانا، بری چیزوں کی اصلاح کرنا، تنگ نظری اور تعصب کو دور کرنا، غیرت و خودداری، ایثار و وفاداری پیدا کرنا، معاشرت میں حسن ولطافت، اخلاق میں تہذیب، عادات میں شائستگی، لب و لہجہ میں نرمی، اپنی چیزوں ، روایات اور تاریخ کو عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کو بلندی پر لے جانا بھی شامل ہیں ۔‘‘ (پاکستانی کلچر از ڈاکٹر جمیل جالبی: صفحہ ۴۲)