کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 106
”گفتگو مقاصد كے حصول كا ذريعہ ہوتى ہے۔ ايسا مقصد جس كا حصول سچ اور جهوٹ دونوں طرح ہوسكتا ہو، ايسى صورت ميں جهوٹ بولنا حرام ہے۔ اور اگر كوئى جائز مقصد ايساہو جس كا حصول صرف جهوٹ ہى سے ممكن ہو تو ايسى صورت ميں جهوٹ بولنا مباح ہے بشرطیكہ اس مقصود كا حصول شرعاً مباح ہو۔ اور اگر مقصود واجب ہو تو جهوٹ بولنا واجب ہے مثلاً مسلمان كى جان بچانا واجب ہے۔ جب كوئى مسلمان كسى ظالم سے چھپا ہوا ہو ايسى صورت ميں سچ بولنے كا نتيجہ اس مسلمان كى جان كے ضياع كى صورت ميں نكلے گا، لہٰذا ايسے حالات ميں جهوٹ بولنا واجب ہے۔اسى طرح لڑائى يا اصلاح بين الناس كا مقصود مطلوب حاصل كرنے كے لئے جهوٹ ناگزير ہو تو جهوٹ بولنا مباح ہے۔ تاہم حتىٰ الامكان جهوٹ سے احتراز كى پورى كوشش كرنى چاہئے كيونكہ جب انسان ايك دفعہ كسى ضرورت كے لئے جهوٹ بولے تو خدشہ ہے كہ وہ مجبورى كى صورت كے علاوہ عام حالات ميں بهى جهوٹ بولنے لگے گا۔ جهوٹ بولنا بنيادى طور پر حرام ہے۔ البتہ (شرعى) ضرورت كے پيش نظر جائز ہے۔“ (احياء علوم الدين: 3؍137، رياض الصالحين: ص586)
بعض اہل علم نے مذكورہ بالا حديث ميں جوازِ كذب كو توريہ اور تعريض كے معنى پر محمول كياہے۔ مثلاً كوئى شخص كسى ظالم سے كہے كہ ميں نے كل آپ كے حق ميں دعا كى تهى۔ جب كہ اس سے اس كى مراد يہ ہو كہ ميں نے اللهم اغفر للمسلمين كہا تها۔
اسى طرح كوئى شخص اپنى بيوى سے كوئى چيز دينے كا وعدہ كرے اور اس كا ارادہ يہ ہو كہ اگر اللہ تعالىٰ نے توفيق دى تو دوں گا يا وہ بيوى كے سامنے محض اپنى قوتِ خريد كا اظہار كرناچاہتا ہو۔
اہل علم كا اتفاق ہے كہ زوجين كے آپس ميں ايك دوسرے سے جهوٹ بولنے سے مراد يہ ہے كہ اس سے كسى كى حق تلفى نہ ہوتى ہو يا ناحق كچھ لينا مقصود نہ ہو۔
اسى طرح لڑائى ميں اگر كسى كو امان دى گئى ہو توجهوٹ كى اجازت نہيں ۔ البتہ اہل علم نے متفقہ طور پر اضطرارى صورت ميں جهوٹ بولنے كى اجازت دى ہے۔ مثلاً كوئى ظالم كسى شخص كو قتل كرنا چاہتا ہے اور وہ مظلوم كسى كے ہاں چھپا ہوا ہے تو اس كى جان بچانے كے لئے وہ اس كے اپنے پاس ہونے كا انكار كرسكتا ہے اورقسم بهى اٹهاسكتا ہے۔ ايسى صورت ميں وہ گناہگار نہ ہوگا۔ واللہ اعلم (فتح البارى: ج5؍ص300)
بعض اہل علم نے ذكر كيا ہے كہ صرف تين صورتوں ميں ہى جهوٹ بولنے كى اجازت ہے جن كاذكر اس حديث ميں آيا ہے۔ اسلئے كہ لشكر امت ِاسلام كے لئے محافظ ہوتا ہے اور اختلاف ہر مصیبت كى بنياد ہوتا ہے اور زوجين كے باہمى نزاع سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ چونكہ يہ چيزيں معاشرہ كى بنياد ہيں ، اس لئے ان صورتوں ميں جهوٹ كى اجازت ہے۔ (جارى ہے)