کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 105
ميں اس كے لئے جنت كے وسط مين ايك محل كا ضامن ہوں ۔ ٭اور جس كے اخلاق اچهے ہوں ميں اس كے لئے جنت كے اعلىٰ او ر بلند درجات ميں ايك محل كا ضامن ہوں ۔“ مذكورہ بالا احاديث سے مستنبط مسائل (1)جهوٹ بولنا نفاق كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى ہے۔ (2)چهوٹوں كے ساتھ جهوٹ بولنا بهى جهوٹ شما رہوتا ہے۔ ا س لئے كہ اس بارے ميں چهوٹے بڑے ميں كوئى فرق نہيں ۔ (3)جهوٹے بادشاہ كى سزا يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ قيامت كے دن اس سے ہم كلام نہ ہوں گے، نہ اس كى طرف دیكھیں گے اور نہ اسے گناهوں سے پاك كريں گے۔ (4)جهوٹ بے سكونى اور سچائى اطمينان كا سبب ہے۔ (5)حديث ميں جهوٹ بولنے والے كى سزا بهى بيان ہوئى ہے۔ (6)مومن كو چاہئے كہ وه جهوٹ سے بچے۔ (7)مومن كا جهوٹ بولنا ناممكن بات ہے۔ (8)يہ بهى ثابت ہوا كہ كهانے كى حاجت ہو تو اس حالت ميں يہ كہنا كہ مجهے حاجت نہيں ، يہ بهى جهوٹ ہے۔ ايسا كہنے والے والے نے بهوك اورجهوٹ كو جمع كرليا۔ (9)جهوٹ ترك كرنے والے كے لئے جنت كے وسط ميں محل تيار ہے۔ جن صورتوں ميں جهوٹ بولنے كى اجازت ہے! حضرت اُمّ كلثوم سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا: (ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس ويقول خيرا أو ينمى خيرا) (بخارى:5؍299 مع فتح البارى، كتاب الصلح، باب ليس الكاذب الذى يصلح بين الناس ؛ 2629 و مسلم: 4؍2011، كتاب البروالصلہ والادب، باب تحريم الكذب و بيان المباح منہ؛ 6576) ”وہ شخص (شریعت كى نظر ميں ) جهوٹا نہيں جو لوگوں كے درميان صلح كرانے كى خاطر اچهى بات كہے يا كسى كى طرف كوئى اچهى بات منسوب كرے۔“ ابن شہاب كہتے ہيں كہ ميں نے سنا كہ ”صرف تين صورتوں ميں جهوٹ بولنے كى اجازت ہے۔ لڑائى كے موقعہ پر، لوگوں كے درميان صلح كرانے كى خاطر اور مياں بيوى كا ايك دوسرے سے۔“ امام غزالى فرماتے ہيں :