کتاب: محدث شمارہ 279 - صفحہ 102
(1) شريعت ِاسلاميہ ميں جهوٹ كى مذمت جهوٹ ايك كبيرہ گناہ اور انتہائى برا عیب ہے۔ اس لئے يہ بڑى بُرى بيمارى ہے۔ اسے منافق كى علامت قرار ديا گيا ہے۔ يہ چونكہ ايمان كے منافى ہے۔ (فتح البارى: 10؍508) اس لئے اسے ايمان ميں بہت بڑا عیب قرار ديا گيا ہے۔ جهوٹ بولنا انتہائى مذموم اور قبیح ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے سب سے بُرى عادت قرار ديتے تهے۔ (مسند احمد: 6؍152) اہل علم نے بيان كيا ہے كہ ايمان اور جهوٹ دونوں جمع نہيں ہوسكتے كيونكہ ايمان كى بنياد صدق (سچائى) ہے اور نفاق كى بنياد كذب (جهوٹ) ہے لہٰذا ان دونوں كا اجتماع محال ہے۔ جهوٹ كى مذمت ميں بہت سى احاديث آئى ہيں ۔ ان ميں سے بعض مندرجہ ذيل ہيں : (1)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روايت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا: (أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا وعد أخلف وإذا خاصم فجر) متفق عليه واللفظ لمسلم (بخارى مع فتح البارى:1؍89، كتاب الايمان، باب علامة النفاق؛34 و مسلم: 1؍78 كتاب الايمان، باب بيان خصال المنافق؛207) ”جس شخص ميں چار خصلتیں ہوں وہ پكا منافق ہے۔ اور جس كے اندر ان ميں سے كوئى ايك خصلت ہو اس ميں نفاق كى ايك خصلت ہے، يہاں تك كہ وہ اسے چهوڑ دے : ٭ جب بات كرے تو جهوٹ بولے۔ ٭ جب كوئى معاہدہ كرے تو اس كے خلاف ورزى كرے۔ ٭ جب وعدہ كرے تو وعدہ خلافى كرے۔ ٭ اور جب كسى سے جهگڑا ہو تو گالياں دے۔“ (2) عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں كہ ايك دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گهر تشريف فرما تهے كہ اس اثنا ميں ميرى والدہ نے مجهے بلايا كہ ادهر آوٴ، ميں تمہیں كچھ دوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچها: تم اسے كيا دينا چاہتى ہو؟ اس نے كہا ميں اسے كھجور دوں گى، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: (أما إنك لولم تعطه شيئا كتبت عليك كذبة) (ابوداود :4؍228، كتاب الادب، باب التشديد فى الكذب واحمد :3؍447، وسلسلة احاديث صحیحہ ،حديث نمبر:748) ”خبردار! اگر تم اسے كچھ نہ ديتيں تو يہ بات تمہارے حق ميں جهوٹ لكهى جاتى۔“ (3)حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمايا: