کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 9
” مرد بے کار پھر رہے ہیں اور عورتوں کی گود خالی ہے کیونکہ وہ ماں بننے کیلئے آمادہ نہیں ہیں “ یہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو کر ہمارے سامنے آئی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں ’اکانومسٹ‘ نے ’عورت اور کام‘ کے عنوان سے مفصل سروے شائع کیا تھا۔ اس سروے میں امریکہ کے مختلف شہروں کے متعلق عورتوں کی ملازمت کے اَعدادوشمار دیئے گئے تھے۔ اس سروے میں یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا تھاکہ گذشتہ تین برسوں میں جو نئی آسامیاں نکلی ہیں ، ان کا تعلق سروس سیکٹر سے ہے جن میں زیادہ تر عورتوں کو ملازمتیں ملی ہیں ۔ اس سروے کے مطابق ملازم عورتوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مردوں کی بے روزگاری میں خطرناک اِضافہ ہوگیاہے۔ عورتوں کے متعلق یہ دلچسپ صورت بھی بیان کی گئی تھی کہ وہ دفتروں میں کام کے لئے صبح سویرے نکل کھڑی ہوتی ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ان کے خاوند بچوں کی دیکھ بھا ل کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔ اِسی سروے میں ایک تصویر شائع ہوئی تھی جس میں گھر کی دہلیز پر ایک عورت اپنا بچہ اپنے خاوند کے حوالے کر رہی ہے اور خود اس دہلیز کے باہر قدم رکھ رہی ہے۔ اس سروے میں ایک اور بات بھی قابل ذکر تھی کہ جس محلہ کی عورتیں کام کو سدھار جاتی ہیں تو پیچھے اُن کے مرد گھر پر بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں اور اس محلہ کے بچوں میں جرائم کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ جس طرح مائیں بچوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتی ہیں ، مرد وہ توجہ نہیں دے پاتے۔ مختصراً یہ کہ اگر عورتوں کی ملازمت کے نتیجے میں مردوں میں بے روزگاری پھیلتی ہے، تو یہ کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک ملک کی آبادی سو فیصد تعلیم یافتہ تو ہوسکتی ہے لیکن سو فیصد تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔ اگر تمام تعلیم یافتہ خواتین و حضرات اپنا مقصد ِتعلیم حصولِ ملازمت بنا لیں ، تو ان کی اچھی خاصی تعداد کو بے روزگار رہنا پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں اگر خواتین تعلیم کو حاصل کریں ، مگر اپنے گھر کے نظم و نسق اور بچوں کی پیدائش و نگہداشت سے رُوگردانی نہ کریں ، گھر سے باہر کے معاملات مردوں کے لئے چھوڑ دیں ، تو اس صورت میں اس قوم کا خاندانی شیرازہ بھی قائم رہے گا اور پڑھے لکھے افراد میں ملازمت کا توازن بھی متاثر نہیں ہوگا۔ عورتوں کی ملازمتوں میں برابری پر زور دینے کی بجائے اگر مردوں کی تنخواہوں میں خاطر