کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 74
وشنید اور قومی اخبارات سے رابطہ کا کام مولانا محمد صادق خلیل ہی انجام دیتے رہے۔
اس وقت مولانا صادق خلیل صاحب نے صدر مدرّس کی حیثیت سے نوائے وقت اور دیگر اخبار کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں انہوں نے حکومت اور انتظامیہ پر سخت تنقید کی اور صدر پاکستان جنرل محمدضیاء الحق اور گورنر پنجاب سے استدعا کی کہ فی الفور اس سانحہ کی تحقیق کروائی جائیں اور اس میں ملوث افراد کو قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ ان کا یہ مراسلہ ۱۵/ جولائی ۱۹۸۰ء کو نوائے وقت میں تفصیل سے شائع ہوا۔
گویا مولانا صادق خلیل صاحب ابتلا کے اس دور میں مولانا مدنی کے شانہ بشانہ چلتے رہے، تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اخبارات و رسائل کو الحاد و بے دینی کے خلاف جاندار بیانات دیئے۔ اور ان حضرات کی کوششوں سے مدرسہ رحمانیہ کے لئے متبادل انتظامات کئے گئے۔ اس کے بعد آخر کار وہ وقت آیا کہ مولانا مدنی، ان کے دست وبازو مولانا محمد صادق خلیل اور دیگر حضرات کی انتھک کوششوں سے ابتلا کی یہ آندھیاں چھٹیں اور مدرسہ رحمانیہ درجہ ثانویہ سے ترقی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نام سے اعلیٰ تعلیمی ادارہ بنا۔ جامعہ کے لئے کئی عمارتیں تعمیر ہوئیں ۔ اور مولانا محمد صادق خلیل جیسے عالی ہمت افراد کے خلوص اور جہد ِمسلسل سے وہ خواب کسی حد تکشرمندہ تعبیر ہوا جس کا عرصہ سے انتظار تھا۔
اب الحمدللہ جامعہ لاہور الاسلامیہ دینی و عصری علوم کے امتزاج سے ایک یونیورسٹی ہے، جس کانصاب پاک وہند کے روایتی علوم کے علاوہ عرب دنیا کی اسلامی یونیورسٹیوں کے نصاب سے ہم آہنگ ہے ۔اسی وجہ سے اس کی سند عرب ممالک کی اکثر اعلیٰ یونیورسٹیوں کے ہاں تسلیم شدہ ہے۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد مذکورہ بالا شعبہ جات میں زیر تعلیم ہے۔ تعلیم کے علاوہ رفاہِ عامہ کے متعدد شعبے بھی یہاں سرگرمِ عمل ہیں ۔
مجلس التحقیق الاسلامی کے نام سے ایک مستقل تحقیقی ادارہ بھی اپنے میدان میں کام کررہا ہے۔ جس کے تحت عرصہ ۳۵ سال سے ماہنامہ ’محدث‘ شائع ہورہا ہے جس میں جدید مسائل پر قدیم و جدید علوم کے ماہر علما اور اساتذہ کے تحقیقی مقالات کے ذریعہ حالاتِ حاضرہ پر اسلامی رہنمائی پیش کی جاتی ہے۔ اسکے علاوہ قدیم و جدید علوم پر مشتمل ایک کمپیوٹرائزڈ منظم لائبریری ہے نیز برصغیر میں گذشتہ ڈیڑھ صدی کے شائع ہونے والے اُردو عربی مجلات کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔ ان مختلف کاموں کی بعض رپورٹیں محدث کے انہی صفحات پر شائع ہوتی رہتی ہیں ۔