کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 73
گہری رسائی کے علاوہ قدیم عربی زبان کے ساتھ جدید عربی کی ضرورتوں کو بھی ملحوظ رکھا گیا۔
دورِحاضر میں عالم اسلام فکروعمل کی سطح پر جس افراط و تفریط کا شکار ہے، اس میں ایک طرف مذہبی حلقوں میں ظاہر پرستی اور تقلید ِجامد چھائی ہوئی ہے تو دوسری طرف ترقی پسندی کے زعم میں اجتہاد کے بجائے الحاد کے دروازے کھولے جارہے ہیں ۔ برطانوی استعمار نے برصغیر پاک و ہند کی عجمیت سے فائدہ اُٹھا کر جزوی فروعی مسائل میں شدت پیدا کرکے فرقہ بندی کو جس طرح فروغ دیا وہ اس پر مستزاد ہے۔ مولانا مدنی کی نظر میں اگر فرقہ وارانہ تعصبات کاحل آزادانہ تحقیقی فضا پیدا کرنا ہے توالحاد و تجدد کا علاج کتاب و سنت سے گہری وابستگی کے ساتھ اس کے توسع اور گہرائی کا بصیرت افروز شعور ہے۔ انہی مقاصد کے پیش نظر انہوں نے ایک ایسا ادارہ بھی مجلس التحقیق الاسلامی کے نام سے تشکیل دیا جس کا مقاصد میں ایسے ہی دینی تحقیقی اور اصلاحی رجحانات کا فروغ شامل ہے۔ اسی مجلس التحقیق الاسلامی کا ترجمان مجلہ ماہنامہ محدث ہے جس کی علم وتحقیق کے فروغ کے لئے خدمات مسلمہ حیثیت رکھتی ہیں ۔
مولانا مدنی نے مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر جب اپنے تعلیمی مشن کی ابتدا وسائل کی کمی کی بنا پرمدرسہ رحمانیہ سے کی تو انہی دنوں (۱۹۷۰ء میں ) اس کے مقاصد محفوظ رکھنے اور یونیورسٹی کے منصوبہ کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مجلس التحقیق الاسلامی قائم کردی اور جونہی انہیں مولانا محمد صادق خلیل جیسا تدریسی تجربہ اور تحقیقی ذوق رکھنے والا رفیق کار ملا تو انہوں نے کلیة الشریعة کی ابتدا کرکے مدرسہ رحمانیہ کو جامعہ لاہو رالاسلامیہ کی صورت دے دی۔ بعد ازاں اس میں دیگر کلیات مثلاً کلیة القرآن والعلوم الاسلامیة اور کلیة العلوم الاجتماعیة کے قیام کے علاوہ المعہد العالي للشریعة والقضاء اور المعہد العالي للدعوة والاعلام کے اعلیٰ تخصصاتی کورس بھی جاری کئے۔
مولانا محمد صادق خلیل کے حوالہ سے لکھی جانے والی ان سطور میں جامعہ رحمانیہ کا تعارف اور اس کے شعبہ جات کا تذکرہ اسی مناسبت سے ضروری ہے کہ اس کی بنیادوں میں مولانا صادق خلیل مرحوم کا بھی ایک اہم حصہ تھا، بلکہ جامعہ میں مولانا محمد صادق خلیل کے قیام کے دوران ایک المناک حادثہ یہ ہوا کہ جامعہ کی قدیم عمارت (۲۷۰ فیروز پور روڈ، بالمقابل قذافی سٹیڈیم، لاہور ) کو جولائی ۱۹۸۰ء میں رات کے وقت ناگہانی طور پر بلڈوز کردیا گیا جب کہ مولانا مدنی پاکستان سے باہر تھے۔ ان دنوں مدرسہ رحمانیہ کی طرف سے حکومت سے گفت