کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 72
ہوشیاری، مولانا عبدالرحمن نومسلم، مولانا حافظ محمد اسحق اور مولانا داوٴد انصاری بھوجیانی جیسے لائق اور کہنہ مشق اساتذہ کی زیر تربیت ان کی شخصیت پروان چڑھی اور ۱۹۴۵ء میں اسی دارالعلوم میں مسند ِتدریس پرفائز ہوے۔ اسی دوران میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی اور فاضل فارسی کے امتحانات میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ تدریسی خدمات اور مدرسہ رحمانیہ سے وابستگی مولاناموصوف کا تدریسی تجربہ ۵۰ سال پر محیط ہے۔ اس دوران ہزاروں تشنگانِ علم نے آپ سے کسب ِفیض کیا۔ آپ نے جب تدریس کا آغاز اپنے محسن و مربی کی خواہش پر اپنی مادرِ علمی سے کیا توچودہ سال تک وہاں سے قدم نہیں ہٹایا۔ پھر کچھ عرصہ بعض مدارس میں گذارنے کے بعد ۱۹۷۸ء میں حافظ عبدالرحمن مدنی کے ساتھی کی حیثیت سے مدرسہ رحمانیہ کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ مولانا مدنی کے سامنے ایک عظیم اسلامی یونیورسٹی کا منصوبہ تھا،جس کے لئے وہ عملی میدان میں اُترنے کی ابتدا ہی سے کوشاں تھے۔ مولانا مدنی اپنے اس عزم کو عالم اسلام کی مایہ ناز مدینہ یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہ کر کافی صیقل کرچکے تھے جس کیلئے اُنہیں مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز بن باز مرحوم کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی بھی حاصل تھی۔ ۱۹۶۸ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد مولانا مدنی نے عام دینی مدارس کی روش سے ہٹ کر مدارس کی درجہ بندی کے تصور کو قائم رکھتے ہوئے ایک ثانوی درجہ کی درس گاہ ’مدرسہ رحمانیہ‘ کے نام سے لاہور میں شروع کی، جسے وہ اسلامی یونیورسٹی کے منصوبہ کی تکمیل کی غرض سے اعلیٰ تعلیم کی طرف ترقی دینا چاہتے تھے کہ مولانا محمد صادق خلیل جیسی کہنہ مشق شخصیت کی رفاقت اُنہیں ملی۔ چنانچہ اُنہوں نے شریعت اور عربی علوم کی اعلیٰ تعلیم کے تخصص کی طرف قدم رکھا۔ اس وقت اس مرحلہ تخصص کے اساتذہ میں حافظ عبداللہ بھٹوی اور ڈاکٹر شیخ عاصم قریوتی (اُردنی) بھی شامل تھے۔ مولانا مدنی کے پیش نظر یونیورسٹی کا ایسا خاکہ تھا جس میں کسی خاص فرقہ وارانہ سوچ کو پروان چڑھانے کی بجائے ایسے علما کو تیار کیا جائے جو مذہبی تعصبات سے بچ کر سلف صالحین کے نہج پرکتاب و سنت کی آزاد فضا میں جہاں دینی علم و تحقیق میں دسترس رکھتے ہوں وہاں دنیاوی تجرباتی سماجی علوم سے بھی آراستہ ہوں ، تاکہ جدید معاشروں میں اسلام کی رہنمائی موٴثر طریقے سے انجام دے سکیں ۔ اسی غرض سے نصاب میں شریعت اور سماجی علوم دونوں تک