کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 71
تذکرۂ ایام محمد اسلم صدیق
مولانا صادق خلیل اور جامعہ لاہور الاسلامیہ
یہ حقیقت ہے کہ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے ٹھکانہ ایک نہ ایک دن ہر انسان کا مقدر ہے۔ لیکن کچھ لوگ اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ ان کی موت و حیات گہرے اثرات چھوڑ جاتی ہے۔ دنیا ان کو عرصہ تک یاد رکھتی اور ان کے علمی و عملی نقوش سے مدتوں فیض یاب ہوتی ہے۔ موت العالِم موت العالَم
(عالم کی موت جہاں کی موت ہوتی ہے!)
شیخ الحدیث مولانا محمد صادق خلیل بروز جمعتہ المبارک ۱۴/ذوالحجہ ۱۴۳۴ بمطابق ۶/ فروری ۲۰۰۴ء کو مختصر علالت کے بعد عمر کی ۸۰ بہاریں دیکھ کراس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للّٰه وإنا الیہ راجعون۔ مولانا ایک جید عالم اور بلند پایہ مصنف تھے۔ انہوں نے متعدد اہم کتب کا نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ ’اصدق البیان‘ کے نام سے اُردو زبان میں قرآن کریم کی ایک ضخیم تفسیر بھی لکھی جس کی پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں اور چھٹی جلد طباعت کے مراحل میں ہے۔ ان کی بیشتر زندگی تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزری۔
مولد ومسکن:
مولانا موصوف ۲۰/مارچ ۱۹۲۵ء کو فیصل آباد کے ایک مشہور گاوٴں اوڈانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم مولانا احمد دین رحمۃ اللہ علیہ مجاہد ِحریت صوفی عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرکے شہیدین کی ’جماعت المجاہدین‘ میں شامل ہوگئے تھے۔
بقول محترم اسحق بھٹی، موصوف کے والد نہایت متقی،انتہائی منکسرمزاج اور صوفی عبداللہ کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ بلکہ انہوں نے صوفی صاحب سے ہی قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا تھا اور موصوف کی تعلیم و تربیت میں صوفی صاحب کا خاصا دخل تھا۔
تعلیم و تربیت:
مولانا موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد ۱۹۳۶ء میں صوفی محمد عبداللہ صاحب کی خواہش پر اوڈانوالہ میں ان کے مدرسہ ’تقویة الاسلام‘ میں داخل ہوگئے۔ پھر صوفی محمد عبداللہ جیسے زہدوتقویٰ کے پیکر، حافظ محمد گوندلوی جیسے متبحر عالم دین، مولانا نواب الدین، مولانا ثناء اللہ