کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 67
نے ان سے جو کتابیں پڑھیں ان کے نام حسب ِذیل ہیں :
سنن نسائی، کافیہ، قدوری، شرح وقایہ، فصولِ اکبری، قطبی اوربوستانِ سعدی
میرے ہم سبق جو طلبہ تھے، ان کے یہ نام ہیں : قدرت اللہ فوق، محمد علی جانباز، عبدالمجید سنانوی، عبدالغفور فیصل آبادی، عبدالرحمن فیصل آبادی، صلاح الدین چک نمبر ۹۲ گ ب اور محمد صدیق چک نمبر ۷۲ گ ب۔
یہ غالباً ۱۹۵۰ء کے بعد کا دور ہے جو خالص علمی دور تھا۔ کتابوں کے متون، شروح اور حواشی پڑھنے کا دور تھا۔ اساتذہ کرام کی سرگرمیاں نصابی کتب کی تدریس تک محدود تھیں ۔ طالب علمی کے ابتدائی دور سے ہی مجھے عربی ادب پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اُردو سے عربی میں ترجمہ کرنے کی مہارت حاصل کرنے کے لئے تعلیمی اوقات کے بعد عموماً میں حضرت مولانا کے گھر جایا کرتا تھا۔ یہ بہت حلیم الطبع انسان تھے۔ مجھے وقت دے دیا کرتے تھے۔ مجھے منفلوطی کے لکھے ہوئے ڈرامے، ناول اور افسانے پڑھنے کا بھی جنون تھا۔ میں ان میں موجود مشکل الفاظ، تراکیب اور جملوں کی طویل فہرستیں تیارکرتا اور مولانا کے پاس لے جاتا۔ آپ کمالِ شفقت سے ان کی تشریح فرما دیتے، کبھی بخل سے کام نہ لیتے۔
متانت ، وقار، کسر نفسی اور خندہ پیشانی آپ کی سیرت کا بڑا حصہ تھا۔ میرے دورِ طالب علمی پر عرصہ دراز گزر چکا تھا مگر ان کے ذہن میں میری شناخت اور پہچان اسی طرح تازہ تھی جیسے آج بھی میں ان کا شاگرد ہوں ۔ بڑی بے تکلفی کا اظہار کرتے اور مجھے کہتے تم میرے ایسے شاگرد ہو جس پر مجھے ناز ہے۔ چند ہفتوں کی بات ہے کہ مولانا میرے قریبی محلہ کی مسجد میں تشریف لائے، میں بھی مسجد میں موجود تھا۔ آپ کی طرف سے تفسیر قرآن (اصدق البیان) کی طباعت اور دیگر اخراجات کے سلسلے میں مالی اعانت کی اپیل ہوئی۔ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔میرے بارے میں میرے سامنے آہستہ سے پوچھا: غلام نبی نے کتنی رقم دی ہے۔ جمع کرنیوالے نے کہا:کچھ رقم دی ہے، یہ عمل خیر کو مخفی رکھتے ہیں ۔ بہت خوش ہوئے۔ آج وہ یہاں موجود نہیں ہیں مگر ان کے کردار کی جھلکیاں پردہ ذہن پرنمودار ہورہی ہیں ۔ انسان عارضی ہے مگر اس کا عمل ابدی ہے!!