کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 65
اُمت ِمسلمہ کو غیرت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔“
٭ ہمارے ہاں دینی حلقوں میں بھی سیاست کے غلبہ کی وجہ سے سیاست دان علما جس طرح اب کھلے عام تصویر نمائی سے کام لے رہے ہیں ، باوجودیکہ ان کے اکابرین کچھ عرصہ پہلے تک اس کی حرمت پرمتفق نظر آتے ہیں تو عوام میں غیر محتاط تصاویر کا استعمال یوں نظر نہ آتا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم مغرب کی اندھا دھند تقلید کے لئے اباحت ِمطلقہ کے رویہ سے بچ کر سلف صالحین کے طور طریقوں کی اقتدا پر زور دیں : ﴿وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ/ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أنْعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَالاَ الضَّآلِيْنَ﴾ (لقمان:۱۵،الفاتحہ:۷)
”یعنی ہماری جانب عاجزانہ رجوع کرنے والے کی پیروی کر۔
یا اللہ !ہمیں ان لوگوں کی راہ پر ڈال جومغضوب علیہم (یہود) اور گمراہ(نصاری) سے علیحدہ ہو کر تیرے انعام کے حامل ہوئے۔“
بقولِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ زِ تقلید عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
٭ ہماری نظر میں مفتی صاحب کا تصویر کے مسئلہ میں نقطہ نظر اُدھورا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اُصولِ فقہ (علم الاستدلال)سے ناواقف ہیں ۔ فقہاء شرعی احکام کا تجزیہ کرتے ہوئے حرمت کی دو قسمیں کرتے ہیں : (1) قبیح لعینہ(2)قبیح لغیرہ
اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ مفتی صاحب کا یہ موقف درست ہے کہ تصویر قبیح لعینہ یعنی فی نفسہ حرام نہیں جیسا کہ ان کے سارے دلائل اسی کے گرد گھوم رہے ہیں تو قبیح لغیرہ ضرور ہے۔اگرچہ قبیح لغیرہ ہونے کی بنا پر کئی مواقع پر تصویر کا جواز نکل آئے گا جیسے تعلیم وتربیت کے لیے (جیسا کہ حضرت عائشہ کے پاس گڑیاں وغیرہ تھیں ) یا اہانت ملحوظ رکھتے ہوئے گدوں اور تکیوں کی صورت میں کٹی پھٹی تصویروں کا استعمال۔ تا ہم شریعت میں عمومی طور پرتصویراُتارنے والوں کی مذمت اور تصویروں کی نمائش ممنوع ہی رہے گی۔
کون کہہ سکتا ہے کہ اگر محترم سیاسی یا مذہبی شخصیتوں کی کھلے عام تصویر کشی یا تصویر نمائی کی اجازت دے دی جائے تو یہی شخصیتیں کبھی اسی طرح مقدس حیثیت اختیار نہ کرجائیں گی جس طرح قومِ نوح کے صالحین کی تصویریں ہی ان میں بت سازی اور بت پرستی کا باعث بنی تھیں ۔ اسی لئے ماضی قریب تک علما بلکہ مسلم دانشور بھی تصویر کی حرمت کا فتویٰ دیتے رہے جس میں نمایاں مثال مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ (حافظ عبد الرحمن مدنی)