کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 6
صنعت آج کل بحران سے گزر رہی ہے۔ اس کی کمپیوٹر کی صنعت جس نے امریکی صنعت کاروں کے ہوش اڑادیئے تھے، آج کل سست رفتاری کا شکار ہے۔ جاپان کی مایہ ناز ثقافتی اَقدار کا جنازہ نکل رہا ہے۔ نوجوانوں میں جنسی جرائم میں اضافہ ہوگیا ہے۔ معاشرہ سخت کشمکش سے دوچار لگتا ہے۔ جاپان کی نوجوان نسل میں محنت کی بجائے فیشن پرستی، آزاد روی اور آوارگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے جاپان کے متعلق ایک تعجب انگیز خبر پڑھنے کو ملی تھی۔ وہ یہ کہ جاپانی حکومت اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لئے ان عورتوں پر بھی ٹیکس لگانے کا قانون بنا رہی ہے جو اب تک گھروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں ۔ IMFاور مغرب کے معاشی جادوگر پریشان حال جاپانیوں کو یہ پٹی پڑھا رہے ہیں کہ اگرتم اپنی معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہو تو اپنی عورتوں کو گھروں سے باہر نکالو۔ بے حد تعجب ہے، جاپانی قیادت اُن کے اس فریب کے جال میں پھنسی ہوئی ہے!!
خاندانی اقدار کی تباہی
ادھر سکنڈے نیویا کے ممالک جہاں سیاست اور ملازمت میں عورتوں کا تناسب پوری دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے، وہاں خاندانی اَقدار کی تباہی نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ وہاں عورتیں گھر کو’جہنم‘ سمجھتی ہیں ، ماں بننے سے گریز کرتیں اور بچوں کی نگہداشت پر توجہ نہیں دیتی ہیں ۔انہیں گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا چسکا پڑا ہوا ہے کہ وہ گھریلو زندگی کو اَپنانے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ بے نکاحی ماؤں اور حرامی بچوں کا سب سے زیادہ تناسب سکنڈے نیویا میں ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے شہرۂ آفاق ہفت روزہ ’اکانومسٹ‘ نے ۲۳ جنوری ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں A Survey of Nordic Countries کے عنوان سے سکنڈے نیویا کے پانچ ممالک ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور آئس لینڈ کے متعلق ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا ہے۔ یہ ممالک جو Feminismتحریک کے بہت زیادہ زیر اَثر ہیں اور جہاں عورتوں اور مردوں کی مساوات کو بے حد مضحکہ خیز طریقہ سے قائم کرنے کی صورتیں نکالی جاتی ہیں ، ان کے متعلق بعض حقائق بے حد تعجب انگیز اور عبرت ناک ہیں ۔مثلاً اکانومسٹ کے مذکورہ سروے میں ناروے کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہاں کی حکومت جوان لڑکیوں کو ’ماں ‘ کی