کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 59
پتنگ بازی کے حامی بعض افراد یہاں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ ان نقصانات کاکوئی اور حل نکالنا چاہئینہ کہ پتنگ بازی کی تفریح کو بند کر دیا جائے۔
بظاہر تفریح کا پہلو درست نظر آتا مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ پتنگ بازی سے پیدا ہونے والے مضر اثرات اتنے شدید ہیں کہ جب تک کہ خود پتنگ بازی پر پابندی نہ لگائی جائے ان نقصانات کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً لاہور شہر کے تمام راستے اور سڑکیں دن رات زیراستعمال رہتی ہیں اور پورا شہر آباد ہے جبکہ لاہور کے کسی بھی علاقے میں خواہ اندرونِ شہر موجود پارک اور کھیلے میدان ہی کیوں نہ ہوں ، پتنگ بازی کی وجہ سے کٹنے والی پتنگوں کی ڈوریں لامحالہ ان راستوں اورسڑکوں پر گریں گی جہاں سے موٹر سائیکل سواروں کی جانیں مسلسل خطرے میں رہیں گی۔ اس کا تو آخری حلیہی تجویز کیا جاسکتا ہے کہ سائیکل اور موٹر سائیکل سواری ہی پر پابندی لگا دی جائے!!
فضول خرچی
اگر کسی موقع پر غیر ضروری خرچ کیا جائے تو اسے ’اسراف‘ کہتے ہیں یا ایسی جگہ پر خرچ کیا جائے جہاں خرچ ٹھیک نہیں تو اسے ’تبذیر‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت میں اسراف و تبذیر (یعنی فضول خرچی کی ہر صورت) کی سخت مذمت کی گئی ہے مثلاً قرآنِ مجید میں ہے:
﴿وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا إنَّه لاَ يحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ﴾ (الاعراف:۳۱)
”(اے بنی آدم!) کھاوٴ، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں فرماتا جو حد سے تجاوز کرتے ہیں ۔“
دوسری جگہ فضول خرچی کی مذمت میں اس سے بھی سخت انداز اختیار کیا گیاہے۔ چنانچہ ارشادہے: ﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا إنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ کَانُوْا إخْوَانَ الشَّياطِيْنِ وَکَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ کَفُوْرًا﴾ (الاسراء:۲۶،۲۷) ”فضول خرچی نہ کرو، یقینافضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔“
یہ تو تھا اسراف و تبذیر کے بارے میں قرآنِ حکیم کا حکم، اب ان آیات کی روشنی میں آپ پاکستانی مسلمانوں کی موجودہ روش کا جائزہ لیں جہاں ایک طرف ویلن ٹائن ڈے اور بسنت میلہ کے مسرفانہ تہواروں پر کروڑوں روپے نذر کئے جاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی معیشت کی ابتری کا یہ حال ہے کہ پاکستان کا ہر نومولود عالمی بنکوں کا مقروض بن کر اس سرزمین پر آنکھ کھولتا ہے۔