کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 58
اب ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر اجتماعی شادیوں کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اجتماعی شادی کا رواج غیر شرعی تو نہیں لیکن اسے ویلنٹائن ڈے کے ساتھ ملانا مناسب نہیں ۔ اسی طرح میاں بیوی کا آپس میں تحائف کا تبادلہ اور خوشی ومحبت کا اظہاریقینا مستحب ہے مگر ویلن ٹائن ڈے کی مناسبت سے آپس میں تحائف کا تبادلہ کرنا اور خاص اسی روز ایک دوسرے کو پھول پیش کرنا غیر مسلموں کی نقالی کے پیش نظر نامناسب ہے لہٰذا ایسے موقع پر اس طرح کے عمل سے اجتناب ضروری ہے۔
پتنگ بازی سے انجانی ہلاکتیں اورمعاشی نقصانات
کسی اجتماعی پروگرام کے انعقاد میں فتنہ و فسادیا معصوم لوگوں کی ہلاکت کا معمولی اندیشہ بھی ہو تو ہماری حکومت ایسے پروگرام کے انعقاد کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔ واقعتا امن عامہ کے قیام کا یہ اہم تقاضاہے لیکن بسنت میلہ کے موقع پر ان گنت ہلاکتوں کا نہ صرف یقینی خدشہ ہوتا ہے بلکہ جہاں ہر سال اس موقع پر بیسیوں انجان ہلاک ہو جاتے ہیں وہاں سینکڑوں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود ’ بسنت میلہ‘ پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی بلکہ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ سال پتنگ بازی پر پابندی تو عائد کی گئی مگر عین بسنت کے موقع پر پورے ایک ماہ کے لئے یہ پابندی اٹھا لی گئی پھر جب بسنت اپنے یقینی نقصانات اور بے شمار ہلاکتوں کے ساتھ روانہ ہوگئی تو دوبارہ اس پر پابندی عائد کردی گئی۔
راہ جاتے ہمارے سامنے موٹرسائیکل سواروں کے گلے پر ڈورپھرنے اور شہ رگ کٹنے سے سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دینے کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں ، ان کا تسلسل تو سارا سال ہی جاری رہتا ہے جس کے پیش نظر ضروری ہے کہ پورے سال کے لئے اس خونی کھیل پر پابندی لگا دی جائے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ گردن کٹنے کا معاملہ دھاتی یا کیمیکل ڈور سے پیش نہیں آتا بلکہ شیشے کی مانجھا لگی ڈورہی گردن کاٹنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دکانوں پر دستیاب ہر ڈور پر یہ مانجھا لگا ہوتا ہے بلکہ جس ڈور پرمانجھا نہ لگا ہو ،اسے ڈور ہی نہیں کہا جاتا۔
اسی طرح واپڈا / لیسکو کا جو نقصان پتنگ بازی میں دھاتی تار کے استعمال سے ہوتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ علاوہ ازیں پتنگ بازی کے کھیل میں جو باہمی لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں ۔مذکورہ بالا نقصانات کے پیش نظر اس کھیل کی کسی طور اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔