کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 55
(2) مذہب اور ثقافت کا ٹکراوٴ خود واقعاتی طور پر ثابت ہے۔ مثلا ً ’ویلنٹائن ڈے‘ جس نے مغربی ثقافت کی اہمیت حاصل کرلی ہے، عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔ اسی طرح جب مسلمان برصغیر میں آئے تو یہاں کی ثقافت اسلامی اصولوں کے خلاف تھی۔ بیوہ کو ستی کرنا، گائے کا پیشاب پینا اورگوشت کو حرام سمجھنا، میت کو نذرآتش کرکے دریا برد کرنا، کرپال پہننا، بندیا لگانا اور ایسی ہی سینکڑوں باتیں جو برصغیر کی علاقائی ثقافت کا حصہ تھیں اور اب بھی جزوی تبدیلیوں کے باوصف حصہ ہیں ، اسلامی تعلیمات کے یکسر منافی تھیں چنانچہ غیرت مند مسلمانوں نے ان تمام چیزوں سے اجتناب کیا۔ (3)اگر مذہب اور ثقافت میں کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتاتو پھر مسلمانوں کو فوری طور پر ان تمام ہندوٴانہ چیزوں کو اپنا لینا چاہئے تھا یا کم از کم جولوگ اس کے حق میں ہیں انہیں تو ہندوانہ لباس پہن کر، بندیا لگا کر اور کرپال ڈال کر اس کا فخریہ اظہار کرنا چاہئے! (4)اگر علاقائی کلچر مذہب کے منافی نہیں ہوتا یا مذہب علاقائی کلچر کو من و عن اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے تو پھر لامحالہ دو صورتیں پیدا ہوں گی: ایک تو یہ کہ اس سے مراد خاص علاقائی کلچر ہے اور دوسری یہ کہ اس سے ہر خطے کا علاقائی کلچر مراد ہے۔ اول الذکر صورت میں ضرورت ہے کہ اسلام صرف عربوں کا دین ٹھہرے اور اسے آفاقی حیثیت سے محروم کردیا جائے۔ ثانی الذکر صورت میں یہ دین اکبری کی طرح محض ’ملغوبہ‘ بن جائے گا کہ جس علاقے میں بھی یہ پہنچے وہاں کی ثقافت اور علاقائی کلچر میں ڈھل جائے اور اس طرح اس کی وہ امتیازی حیثیت از خود فنا ہوجائے گی جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا اور جس امتیازی حیثیت کو منوانے کے لئے مال و جان کی بے پناہ قربانیاں اور صبر و استقامت کی لازوال داستان ہمارے اسلاف نے رقم کی ہے، وہ پامال ہو جائے گی۔ دراصل ہندو مت میں مذہب و ثقافت تقریباً مدغم ہیں ۔ جن چیزوں کو ان کے ہاں علاقائی ثقافت کا درجہ حاصل ہے وہی ان کے مذہب کی تائید لئے کھڑی ہیں ۔ اس سلسلہ میں ان کی شادی بیاہ کی رسومات کی مثال بڑی واضح ہے جبکہ مغربی معاشرے میں پاپائیت کی شکست کے بعد مذہب کو ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے۔ لیکن اسلام کا معاملہ بالکل منفرد ہے۔دین اسلام اوّل تو آخری الہامی دین ہے اور پھر اس کے اصول و ضوابط کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ یہ تاقیامت پیش آنے والے تمام مسائل کا حل پیش کرنے اور راہِ عمل متعین کرنے کی صلاحیت