کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 54
یہ تمام رسومات اوررواج ختم کر دیئے۔
معلوم ہوا کہ معاشرتی روایات اگر اچھی ہوں اور اسلام کے منافی نہ ہوں تو انہیں ا ختیار کیاجاسکتا ہے مگر کسی تہوار کے بارے میں اسلام کا یہ نظریہ نہیں ہے۔ لہٰذا اسلام کے صرف دو ہی تہوار (عیدین) ہیں اس کے علاوہ کسی اور تہوار کو اسلام میں داخل کرنا ’بدعت‘ کے مترادف ہے خواہ وہ تہوار بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں ۔
تہوار کے بارے میں اس سخت موقف کی وجہ غالبا یہ ہے کہ تہوار چونکہ کسی قوم کی شان وشوکت کے مظہر اور قومی وحدت کاشعار ہوتے ہیں جن میں اس قوم کا تشخص دوبالا ہوتاہے اسلام اپنا ایک برتر تشخص اور الٰہی تصور وفلسفہ رکھتا ہے ۔جس میں کسی غیر قوم کے قومی شعارات کی کوئی گنجائش نہیں ۔
علاقائی ثقافت اور مذہب میں فرق
رسم اور تہوار کے اس اُصولی فرق کی توضیح کے بعد ہم ایک اور اصولی غلطی کی نشاندہی کرناچاہتے ہیں ۔ اول الذکر غلط فہمی کی طرح یہ غلط فہمی بھی سیکولر طبقہ کی پیدا کردہ ہے۔اس غلط فہمی کو ایک سیکولر کالم نگار نے اس انداز میں پیش کیا ہے:
”بعض لوگ معترض ہیں کہ بسنت کا تہوار مذہبی طور پر ’حرام‘ ہے حالانکہ کسی بھی علاقہ کی ثقافت کا مذہب سے کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مشکل اور ہماری سوچ کا اندوہناک پہلو یہ ہے کہ ہم نے آج تک مذہب اور ثقافت میں پائے جانے والے بنیادی فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔“ (’بسنت،لاہور کا ثقافتی تہوار‘ از نذیراحمد چوہدری ص۲۶)
موصوف کی یہ بات کہ ”کسی بھی علاقہ کی ثقافت کامذہب سے کوئی ٹکراوٴ نہیں ہوتا“ محل نظر ہے کیونکہ :
(1)علاقائی ثقافت تو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل یا ارتقا پذیر ہوتی رہتی ہے جبکہ مذہب بالخصوص دین اسلام اپنی محکم روایات اور اصول و اقدار رکھتا ہے جس میں علاقائی تبدیلیاں اس انداز سے ہرگز اثر انداز نہیں ہوسکتیں کہ اس کے ان بنیادی احکام ہی کو ردوبدل کا نشانہ بنا ڈالیں بلکہ اگر عملاً مذہب ہی ردّوبدل کا شکار ہوجائے تو وہ اپنی الہامی حیثیت کھو دیتا ہے۔