کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 53
یہ تو تھا تہواروں کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر اب آئیے معاشرتی روایات کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر معلوم کرتے ہیں : ہم یہ ذکر کر چلے ہیں کہ ہر معاشرے میں کچھ عادات اور روایات اچھی ،کچھ بری اور کچھ ملی جلی ہوتی ہیں ان کی امتیازی حیثیت کی وجہ سے انہیں ’رسومات‘ بھی کہا جا سکتا ہے اور بار بار ان کا اظہار ہوتے رہنے کی حیثیت سے انہیں ’رواج‘ کے لفظ سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے ۔ ان روایات (یعنی رسم ورواج) وغیرہ کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر دو جملوں میں بیان کیاجا سکتا ہے یعنی ’خذ ما صفا ودع ما کدر ‘ …”جو اچھی چیزیں ہیں انہیں اختیار کرو اور جو بری ہیں ان سے اجتناب کرو“ یعنی اگر کسی معاشرے کی کوئی روایت رواج یا رسم اچھی ہو اور اسلامی مزاج کے منافی نہ ہو تو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً ایک صاحب نے عرب معاشرے کی جودو سخا کا ذکر کرتے ہوئے جو یہ کہا ہے : ” ایک روایت کے مطابق دس روز تک خود آنجناب کے لیے اس گھر سے کھانا بھیجا گیا“ تو اس روایت کے حوالے سے اس بات سے قطع نظر کہ سیر ت کی مستند کتابوں میں اس کا کہیں ذکر ہے بھی یا نہیں ۔ ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ جودو سخا عرب معاشرے کی ایک اچھی روایت تھی جسے آپ نے نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اپنے متعدد فرامین میں اس کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔ مگر یہ کوئی تہوار نہیں تھا کہ اس بنیاد پر ہم غیر اسلامی تہواروں کا جواز نکالنے بیٹھ جائیں ! اسی طرح عرب معاشرے میں رواج تھا کہ جب کسی مصیبت یا دشمن کی آمد وغیرہ سے لوگوں کو مطلع کرنا ہوتا تو ایک قاصد روانہ کیا جاتا جواپنے اونٹ کو زخمی کرتا ، کپڑوں کو پھاڑتا ، سر میں خاک ڈالتا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر یا صباحاہ ! یا ویلاہ ! وغیرہ کی الفاظ بلند کرتا جسے سن کر تمام لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر جمع ہو جاتے ۔خود نبی اکرم نے بھی اس مفید رواج سے بوقت ضرورت فائدہ اٹھایا مگر اس میں موجود غیر اخلاقی حرکتوں (یعنی جانور زخمی کرنے ،کپڑے پھاڑنے وغیرہ) کو اختیار نہ کیا۔ اسی طرح وہ معاشرتی روایات جو سرا سر شر پر مبنی تھیں انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہ فرمایا بلکہ ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی فرمائی مثلاً اس دور میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحہ بڑے بیٹے کو وراثت میں ملتی ۔غیر مرد کا نطفہ لینے کے لیے بیوی سے بدکاری کروائی جاتی (جسے ہندومت میں ’نیوگ‘ کہا جاتا ہے) بچیوں کو زندہ درگور کیاجاتا…وغیرہ آپ نے شر پر مبنی