کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 51
اور ذکر الٰہی کا اہتمام بھی ہوتااور کھیل کود کا مظاہرہ بھی۔[1] یہ باتیں مستند کتب احادیث کی روایات سے ثابت ہیں ۔انہی میں سے ایک روایت کو امام نسائی نے اپنی سنن میں ’جاہلانہ تہوار‘ کے عنوان کے تحت اس طرح بیان کیاہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے) فرمایا: (وقد أبدلکم الله بهما خيرا منهما: يوم الفطر و يوم الأضحی) ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں : عیدالفطر اور عیدالاضحی۔“ (صحیح سنن نسائی؛ ۱۴۶۵) اس روایت میں مدینہ کے غیر مسلموں کے دو تہواروں کا ذکر ہے روایات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے علاقائی تہوار تھے اور ان میں مذہبی رنگ شامل نہیں تھا مگر اس کے باوجود آپ نے انہیں ا پنی امت کے لیے ناجائز قرار دے دیا اوراگر ان میں مذہبی رنگ بھی شامل ہوتا تو پھر ان کی ممانعت اور قوی ہوجاتی ۔بلکہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عرب کے بعض تہوار ایسے بھی تھے جن میں مشرکانہ عقائد کی شکل میں ان کا مذہبی رنگ بھی شامل تھا یہ تہوار’عرس‘ کی شکل میں مختلف دنوں میں منائے جاتے تھے جیسا کہ معروف موٴرخ جناب شبلی نعمانی اپنی سیرت النبی میں امام ابن اسحاق کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ ” ایک دفعہ کسی بت کے سالانہ میلہ میں ورقہ بن نوفل ، عبد اللہ بن جحش ، عثمان بن الحویرث ، زید بن عمرو بن نفیل شریک تھے۔ ان لوگوں کے دل میں دفعۃً یہ خیال آیا کہ یہ کیا بیہودہ پن ہے کہ ہم ایک پتھر کے سامنے سر جھکاتے ہیں جو نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ کسی کا نقصان کر سکتا ہے نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔“(ج۱/ص۸۷) یہ اسلام سے پہلے کا واقعہ ہے پھر یہ حضرات موحدانہ تعلیمات پر مبنی دین کی تلاش کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے بعد کیا ہوا اس کی تفصیل مذکورہ کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ بتوں کے ناموں پر بھی عرب میں عرس منائے جاتے تھے مگر آپ نے ان کی پوجا پاٹ اور نذر ونیاز وغیرہ کے لیے کبھی ان میں شرکت نہ فرمائی بلکہ آپ نے چونکہ مشرکانہ عقائد کی سخت تردید فرمائی اور فتح مکہ کے بعد ان تمام بتوں کو نذر آتش کروا دیا، اس لیے یہ مذہبی عرس اور تہوار بھی اپنی موت آپ مر گئے۔
[1] بعض لوگ حضرت عائشہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حبشیوں کی کھیل کود اور بھاگ دوڑ کے مقابلوں کو دلچسپی سے دیکھنے پر بھی یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلام میں کھیل کود کے لیے میلوں ٹھیلوں کی گنجائش ہے۔یہاں بھی دو باتوں کو خلط ملط کر کے یہ لوگ اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسلام کو تفریح سے دشمنی نہیں اور صحت مند تفریح کی اسلام یقینا حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن بسنت اور ویلنٹائن ڈے پر کھیل ہونے کی حیثیت سے ہی اعتراض نہیں کیا جاتا۔مذہبی طبقہ جس بنیاد پر ان کی مذمت کرتا ہے وہ کھیل کود کی بجائے غیر اسلامی تہوار اور مغرب کے فاسقانہ تصورِ محبت کو فروغ دیناہے۔ لاہور میں ’میلہ مویشیاں‘ کے نام سے سالہا سال سے جو تفریحی پروگرام منعقد ہوتے ہیں، مذہبی طبقہ نے اس پر کبھی حرمت اور غیر مسلموں کی مشابہت کا حکم نہیں لگایا۔گو کہ اس میں اب تفریح کی بعض ایسی صورتیں آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی ہیں جو اسلام کے تصور تفریح کے منافی ہیں ۔مثلاً بینڈ باجے،مرد وزن کا اختلاط اوربے پردگی،اسراف کا پہلو بھی ان میں توجہ کامتقاضی ہے جبکہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے تفریح کے علاوہ اور بہت کچھ اپنے جلو میں ساتھ لے کر آتے ہیں ، جن سے ہماری دینی اَساس اور معاشرتی روایات کو بہت سے خطرات لاحق ہیں!!