کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 50
[1] کے جذبات چونکہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں جنہیں کچلا نہیں جا سکتا، اس لیے آپ نے جاہلانہ تہواروں کے برعکس مسلمانوں کے لیے دو مستقل تہوار مقرر فرما دیئے جن میں عبادت (نماز)
[1] ثقافتی میلہ نہیں تھا بلکہ دراصل یہ تجارتی بازار تھا۔ اسی لیے روایات میں اس کے بارے میں ’سوق عکاظ‘ کے الفاظ ملتے ہیں اور یہ تجارتی بازار مکہ مکرمہ میں حرمت والے مہینوں میں منعقد ہوتا تھا اس کے علاوہ نہیں۔اس لیے کہ اس دور میں لوٹ مار اور قتل وغارت گری ایک پیشہ تھا اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کا سد باب ممکن نہ تھا، لہٰذا باہر سے جو تجارتی قافلہ بھی مکہ کے قرب وجوار سے گزرتا اسے لوٹ لیا جاتا ، اسی خوف سے لوگ اپنا مال لے کر مکہ کارخ نہیں کرتے تھے مگر حرمت والے مہینوں میں چور ڈاکو چونکہ اس طرح کا کوئی ارتکاب نہیں کرتے تھے اس لیے ان ایام میں یہ تجارتی بازار خوب گرم ہوتا اور حج کیلئے دنیا بھر سے لوگ اپنے مال واسباب کے ساتھ یہاں جمع ہوتے۔ اس دور کے مخصوص دینی نظریات وتصورات کی رو سے یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ اس تجارتی میلہ میں جوا،شراب اور زنا کاری وغیرہ جیسے اخلاق سوز مظاہر بھی دیکھنے میں آتے ہوں کیونکہ یہ سب چیزیں ان کی ثقافت کا حصہ بن چکی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اگر کبھی شریک ہوئے تو محض تبلیغ کیلئے نہ کہ ان کے اس حیاباختہ ثقافت کوفروغ دینے کیلئے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے غالب آجانے کے بعد تجارتی شکلوں میں تو ارتقا ہوا مگر جرائم اور بے حیائی کا ذریعہ بننے والی تمام صورتوں کاسد باب ہوگیا۔
ممکن ہے کہ موسم حج میں حاجیوں کو تجارت کی اجازت مل جانے کی وجہ سے یہ تجارتی بازار آہستہ آہستہ حج کی صورت بڑھنے والی تجارتی آمدورفت میں ہی ضم ہوگیاہو۔ حج کاموجودہ اجتماع بھی اس لحاظ سے مکہ مکرمہ کی تجارتی درآمد وبرآمد میں غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ سعودی عرب کی حکومت کے مالی استحکام میں حج کے دوران ہونے والی عالمی پیمانے کی تجارت کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔الغرض عکاظ کے بازار کو بسنت کے حالیہ تہوار سے تشبیہ دینا سوئِ فہم کا نتیجہ ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازار عکاظ میں تبلیغی مقاصد کے لیے جانے سے بسنت کے تہوار کے جائز ہونے پر استدلال قیاس مع الفارق ہے۔