کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 5
اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنی نصابی کتب میں جاپان کے اُصولوں کو شامل کیا۔ امریکہ اور یورپ کے صنعت کار جب جاپانی صنعت کاروں کا مقابلہ نہ کرسکے تو بالآخر انہوں نے جاپانی معاشرے کی ثقافت اور اَقداری نظام کو بدلنے کی سازش تیار کی۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں مغربی میڈیا نے جاپانی ثقافت پر مغربی تہذیب کی یلغار شروع کی۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے جاپان کوOpenکرنے کے لئے مسلسل جاپانی حکومتوں پر دباؤ ڈالے رکھا۔ صدر ریگن اور جارج بش نے جاپانی راہنماؤں سے ہر ملاقات میں اس شرط کو دہرایا کہ جاپان سے ہر سال ایک مخصوص تعداد میں اَفراد امریکہ اور یورپی ممالک کی سیر کریں ۔ جاپانی سینماؤں اور ٹیلی ویژن پر امریکی فلمیں اور ثقافتی پروگرام شروع کرنے کا دباؤ بھی ڈالا گیا۔ جاپان کی معروف صنعتی فرموں کو مجبور کیا گیا کہ و ہ اپنے ایگزیکٹوز کو یورپ اور امریکہ کی سیر پر جانے کی ترغیب دیں ۔ اس طرح کے سینئر مینیجرزکے لئے دیگر سفری الاؤنس کے ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کو اپنے ساتھ رکھنے کے الاؤنس بھی منظو رکرائے گئے۔ امریکی ہوٹلوں نے جاپانی سیاحوں کو رعایتی نرخ پر سہولیات اور شباب و کباب کی تعیشات مہیا کیں ۔ امریکیوں نے ملازمتوں میں مساوی حقوق کی شرط بھی جاپان سے منوائی۔ جاپان میں عورتوں کو اب بھی نسبتاً غیر پیداواری سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۶ء میں ہفت روزہ ’ٹائم‘ میں ٹویوٹا کمپنی کے چیئرمین کا انٹرویو راقم الحروف کی نگاہ سے گزرا تھا جس میں امریکی صحافی نے ٹویوٹا میں عورتوں کی تعداد نہایت کم ہونے کی وجہ دریافت کی تھی۔ اس کے جواب میں ٹویوٹا کے چیئرمین کا جواب نہایت دلچسپ تھا، اس نے کہا تھا: "We have already enough decoration flowers in our company" یعنی ”ہمارے ہاں پہلے ہی سجاوٹی پھول کافی ہیں ۔“ ۱۹۹۰ء کے بعد جاپانی معاشرے پر مغربی تہذیب اورFeminism کے اَثرات جس تناسب سے بڑھے ہیں ، اُسی رفتار سے ان کی صنعتی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے اور آج جاپان جو ماضی قریب میں بہت بڑاصنعتی دیو سمجھا جاتا تھا، ا س کے بارے میں پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ اس کی معیشت مستقبل قریب میں شدید بحران کا شکار ہوجائے گی۔ اس کی بنکوں کی