کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 49
اب رہی یہ بات کہ ایک مسلم معاشرہ غیر مسلم تہواروں کو منانے کی گنجائش رکھتا ہے یا نہیں ؟ تو مذہبی نقطہ نظر سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ کوئی شخص سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے ان تہواروں میں شرکت کرنا چاہے تو کرے لیکن اگرکوئی نام نہاد دینی رہنما یہ دعویٰ کرے کہ دین اسلام بھی اس معاملہ میں اس کی پشت پناہی کرتاہے تو یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے خوشی کی غرض سے دو تہوار (عیدین) مقرر کئے جبکہ باقی تمام تہواروں کی آپ نے ممانعت فرما دی۔ آپ کے بعدکسی کو یہ اتھارٹی حاصل نہیں کہ وہ کسی اور تہوار کواسلام کا حصہ بنائے۔ سیکولر طبقہ نے علاقائی رواج اور تہواروں میں اصولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے کئی ایک شبہات پیدا کئے ہیں جن کا ازالہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس اُصولی فرق کو واضح نہ کر دیا جائے۔ تہوار اور رسم ورواج میں فرق ہر قوم اور معاشرے میں کچھ روایات خالصتا اچھی ہوتی ہیں اور کچھ بری اور کچھ ایسی بھی جن میں خیر وشر کا اختلاط ہوتا ہے ۔علاوہ ازیں ہر قوم کے کچھ تہوار بھی ہوتے ہیں جن میں قوم کا ہر فرد شریک ہوتا ہے خواہ وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں ۔روایات اور تہواروں کے بارے میں اسلام کانقطہ نظر جاننے کے لیے ہم تہواروں سے بات شروع کرتے ہیں ۔ دیگر اقوام کی طرح اہل عرب بھی کئی ایک تہوار منایاکرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کسی تہوار کو اپنایا اور نہ اہل ایمان کو ان میں شرکت کی کبھی اجازت دی۔[1] تا ہم خوشی اور تفریح
[1] البتہ دعوت وتبلیغ کے لیے غیر مسلموں کے تہوار میں لوگوں کے اکٹھ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپؐ شرکت فرما لیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عوف بن مالک سے مروی ایک روایت میں ہے کہ یہودیوں کے ایک تہوار(عید) کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کنیسہ میں تشریف لے گئے اور میں بھی آپ کے ہمراہ تھا اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تبلیغ فرمائی… پھر واپس تشریف لے آئے۔ (دیکھئے :مسند احمد ۶/۲۵، حاکم ۳/۴۱۵،مجمع الزوائد ۷/۱۰۵) بعض لوگ غیر مسلموں کے تہواروں میں آنحضرت کی اس طرح کی شرکت سے بسنت میلہ منانے کا جواز کشید کرنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں حالانکہ غیر مسلموں کے کسی تہوار میں تبلیغ کے لیے شرکت کرنے اور اسے انہی کے ڈھب سے منانے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح بعض اصحاب کا کہنا ہے کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے میلے میں شرکت فرماتے تھے جب کہ اس کا انتظام وانصرام کفار مکہ کے پاس تھا۔لہٰذا کفار کے میلوں میں شرکت جائز ٹھہری‘ ‘ حالانکہ یہاں بھی وہی کج فہمی ہے جو اوپر والی صورت میں ہے ۔یعنی کسی تہوار میں لوگوں کے اجتماع سے کوئی تبلیغی فائدہ اٹھانا اور بات ہے اور اس کو منانے کے لیے اس میں عملا شرکت کرنا اوربات۔ یوں بھی عکاظ ان معنوں میں کوئی دینی تہوار یا