کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 48
دن سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں ۔ جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ “ (ایضاً: ص۳ تا ۴) پاکستان میں گذشتہ دو تین سالوں سے اسے کس انداز میں منایاجارہا ہے اس کااندازہ ۱۴ فروری سے ایک دو روز آگے پیچھے کے کسی بھی قومی اخبار پر سرسری نگاہ ڈال کر کیا جاسکتا ہے۔ ایک تازہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے: راقم کے ایک دوست نے بتایا کہ۱۴ فروری۲۰۰۴ء(ہفتہ) کو جب میں اپنے کام سے واپس گھر آرہا تھا تو راستے میں ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ۲۵،۳۰ نوجوان جنہوں نے سرخ قمیصیں / شرٹیں پہن رکھی ہیں اور ہاتھوں میں گلاب کے پھول اٹھا رکھے ہیں ، ایک سادہ مزاج آدمی کو پیٹ رہے ہیں ۔ میں نے انہیں سمجھانے اور روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے بھی دھکے مارنے لگے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ نوجوانوں / مستانوں کی ٹیم ویلنٹائن ڈے منانے کے شوق میں راہ گزرتی خواتین کو تنگ کرنے اور پھول پیش کرنے کا مظاہرہ کررہی تھی۔ اس شخص نے انہیں ایسی فحش حرکتیں کرنے سے منع کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں یہ سب اس پر ٹوٹ پڑے۔اس نے کہا:” میں نے سوچا کہ پولیس کو فون کیا جائے مگر قریب کہیں فون کی سہولت میسر نہ تھی ۔ پھر میں اس معمولی واردات کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا۔“ اگرچہ بظاہریہ واقعہ چھوٹاہوگا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ سرکاری سطح پر اگر ایسے اقدامات کی روک تھا م نہ کی گئی تو آئندہ چند برسوں میں جنسی انارکی اور اباحیت کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب اس معاشرے کی رہی سہی اسلامی اقدار بہا لے جائے گا۔ بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت بدعتی تہوار اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بسنت اور ویلنٹائن ڈے الگ الگ قوموں کے دوتہوار ہیں ۔بسنت ہندووٴں کا اور ویلنٹائن ڈے عیسائیوں کا۔ ہندووٴں کے ہاں بسنت میں مذہبی رنگ بھی شامل ہے جبکہ عیسائیوں کے ویلن ٹائن ڈے کو ان کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔ تاہم اباحیت کی جو تحریک مغرب میں عروج پرہے، اس کے مقابلہ میں اس فحش تہوار پر کسی قسم کی قدغن لگانا خود عیسائی مذہب کے ’ذمہ داروں ‘ کے لئے ممکن نہیں ۔