کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 47
ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔“ ( ’ویلنٹائن ڈے‘ از محمد عطاء اللہ صدیقی، ص۳) ۱۴ فروری کا یہ ’یومِ محبت‘ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے بارے میں محمد عطاء اللہ صدیقی رقم طراز ہیں : ”اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلن ٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہورہے تھے۔“ آج کل یورپ و امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتا ہے ، اس کی تفصیلات کو جاننے کے لئے محترم صدیقی کا پیش کردہ درج ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیے: ”ہمارے ایک فاضل دوست جو نہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی․ایچ․ ڈی کرکے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں ، انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلن ٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکا نے اپنے سینوں اوراعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا