کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 45
ہوتے چلے گئے…! واضح رہے کہ متذکرہ جرم کے بعد حقیقت رائے کو پھانسی لاہورمیں علاقہ گھوڑے شاہ میں ’سکھ نیشنل کالج‘ کی گراوٴنڈ میں دی گئی۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہندووٴں نے اس جگہ یادگار کے طور پر ایک مندر تعمیر کیا لیکن یہ مندر آبادنہ ہوسکا اور قیام پاکستان کے چند برس بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گئے اور اب یہ جگہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ (روزنامہ نوائے وقت، ۴ فروری ۱۹۹۴ء) بسنت کو ہندوو ٴں کے ہاں پہلے بھی مذہبی تہوار کی حیثیت حاصل تھی جبکہ حقیقت رائے کی پھانسی کے بعد اس میں مزید مذہبی رنگ شامل ہوگیا اور آج بھی اسے مذہبی حیثیت ہی سے منایا جاتا ہے۔ ایک صاحب کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ فرمائیے: ”بسنت تو ہندو کا ایک مذہبی تہوار ہے اور اس کے لئے خاص طور پر اہتمام کیا جاتا ہے، گذشتہ سال جنوری میں الٰہ باد (بھارت) کے مقام پر جو ’مہاکنبھ میلہ‘ ہوا تھا اس میں بڑے بڑے اچاریوں اور مہنتوں نے شبھ گھڑیوں کی تقسیم کی تھی۔ اس کے مطابق ۲۹ جنوری کے روز ’بسنت پنجمی‘ کا تہوار منوایا گیا تھا۔ میں نے خود اس روز اپنی آنکھوں سے دہلی کی پرانی سبزی منڈی کے پاس بسنت کا مذہبی جلوس دیکھا تھا جوکالی کے مندر کی طرف جارہا تھا۔ اسی طرح میں نے آگرہ کے ایک کالج کے پرنسپل سے بسنت کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: ’بسنت پنجمی ماگھ یا بھاگون کے مہینہ میں منائی جاتی ہے۔ اس دن گاوٴں گاوٴں ، شہر شہر میں جگہ جگہ میلے لگتے ہیں ۔کبڈی، ہاکی، فٹ بال اور کشتی وغیرہ کے کھیل کھیلے جاتے ہیں ۔ اس میں سرسوتی اور کالکا دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ بچے، بزرگ اور عورتیں وغیرہ پیلے کپڑے پہنتے ہیں ۔ گھروں میں پیلا حلوہ اور پیلے چاول پکائے جاتے ہیں ،بچے اور نوجوان پتنگیں اڑاتے ہیں ، چاروں طرف خوشحالی اور خوشی کا ماحول رہتا ہے۔“ ( رانا شفیق خاں پسروری ، ہفت روزہ اہلحدیث بابت ۲۱/ فروری ۲۰۰۳ء، ص۱۹) خلاصہٴ کلام پتنگ اور بسنت کے نام نہاد جشن بہاراں کے بارے میں گذشتہ تفصیلات سے معلوم ہواکہ (1)پتنگ سازی کا آغاز ہزاروں سال قبل مسیح ہوا جبکہ دنیا بھر میں اسے اصلاً تو تفریح کی غرض سے لیکن اس کے علاوہ اسے سائنسی تجربات، عسکری مقاصد، پیغام رسانی جیسے مفید کاموں کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔اسی طرح مذہبی توہمات وغیرہ کے تحت بھی