کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 44
ایک مذہبی تہوار تھا جب کہ پتنگ کو کھیل و تفریح کے علاوہ اگرچہ سائنسی تجربات، عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور مذہبی توہمات کے تحت بھی اسے اُڑایا جاتا تھا۔ یعنی یہ دو الگ الگ چیزیں تھیں ،پھر ان کا ا ختلاط کیسے ہوا؟ اس کا پس منظر بڑا دل خراش ہے جواُمت ِمسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اوّل میں متحدہ پنجاب مسلمانوں کے زیرنگیں تھا کہ سیالکوٹ کے ایک کھتری (ہندو) کا سترہ سالہ لڑکا ’حقیقت رائے باغ مل پوری‘ مسلمانوں کے ایک سکول میں زیر تعلیم تھا۔ وہاں کسی موقع پر اس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس توہین پرحقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لئے لاہور بھیجا گیا۔ وہاں اس نے اقرارِ جرم کرلیا۔ لہٰذا لاہور کے مسلمان گورنر زکریا خان کے حکم پر اسے پھانسی دے دی گئی۔ یہ ۱۷۳۴ء یا ۱۷۳۷ء کا واقعہ ہے۔ اس پر نہ صرف ہندو آبادی کو شدید دھچکا لگا بلکہ سکھوں نے بھی اس غم میں برابر کی شرکت کی کیونکہ اس کی شادی ایک سکھ لڑکی سے ہوئی تھی۔ حقیقت رائے نے چونکہ اسلام دشمنی میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کے بارے میں گستاخی کا ارتکاب کیا تھا اور اس کی جان بخشی کی صورت اگرچہ یہ تھی کہ وہ تائب ہوکر اسلام قبول کرلیتا مگر اس نے اپنے دھرم کے مقابلہ میں اسلام کو ٹھکرا دیا اور جان کی بازی لگا دی۔ لہٰذا ہندووٴں اور سکھوں نے اسے ’ہیرو‘ کا درجہ دے دیا۔ حقیقت رائے کے اس واقعہ سے قریب قریب سبھی اتفاق کرتے ہیں ۔ تاہم اس کی تفصیلات میں اختلافِ رائے ہے۔ بعض موٴرخین کے بقول پنجاب میں بسنت کا میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ (جیسا کہ ہندو موٴرخ ڈاکٹر بی ایس نجار نے اپنی کتاب"Punjab Under the Later Mughals"کے ص ۲۷۹ پر لکھا ہے) جبکہ بعض کے نزدیک ’بسنت‘ میلہ اس سے بھی پہلے سے چلا آتا تھا جیسا کہ البیرونی کی کتاب الہند میں ہے لیکن جس روز حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی، اتفاق سے وہ ’بسنت‘ ہی کا دن تھا۔ چنانچہ متحدہ پنجاب کے غیر مسلموں نے اس اتفاقی دن سے فائدہ اٹھایااورجہاں حقیقت رائے کو پھانسی دی گئی تھی وہاں اس کا مزار بنا کر یہی تہواروہ نئی آن شان سے منانے لگے بلکہ انہوں نے جشن کے طور پر پتنگ اڑانے شروع کردیئے۔ اس طرح بسنت اور پتنگ لازم و ملزوم