کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 43
طرح اسے مذہبی مقاصد کے لئے بھی اختیار کیا گیا۔ مثلاً چین ہی کے لوگ توہم پرستی کے پیش نظر مختلف ساخت اور مختلف رنگوں کے پتنگ اپنے مذہبی دیوتاوٴں کو مختلف پیغام پہنچانے کے لئے اُڑانے لگے۔ اسی طرح جاپان اور کوریا کے لوگوں نے اس توہم پرستی میں پتنگ بازی کو اختیار کیا کہ اس سے بدروحیں بھاگتی اور فصلیں زیادہ پیداوار دیتی ہیں ۔ نیپال کے لوگوں کا اعتقاد ہے کہ پتنگوں سے دیوتاوٴں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اب زمین پر بارش کی ضرورت نہیں ۔ ہندو اور بدھ مت کے پیرو کار پتنگ بازی کے تہوار کو ’درگادیوی‘ سے منسوب کرتے ہیں ۔ درگا دیوی کو ان کے ہاں ایسی دیوی مامتا خیال کیا جاتا ہے جو دُکھی انسانیت کو برائیوں کے چنگل سے چھڑاتی ہے۔ اسی طرح لاہورمیں ، ’بابا گڈی سائیں ‘ کے نام سے ایک دربار ہے جو شاہی قلعہ کے عقبی گیٹ کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس کا نام ’گڈی سائیں ‘ اس لئے معروف ہوا کہ لوگوں کے بقول باباجی پتنگ اُڑا کر ان کی مشکلات دور کردیا کرتے تھے اور لوگ بھی پتنگیں اور ڈوریں انہیں بطورِ نذرانہ پیش کرتے۔ یہ تو تھی پتنگ سازی اور پتنگ بازی کی مختصر تاریخ، اب آئیے ’بسنت‘ کا جائزہ لیتے ہیں : ’بسنت‘ ہندوانہ مذہبی تہوار جن خطوں میں موسمی تغیرات ’بہار‘ کی فضا مہیا کرتے ہیں ، وہاں عام طور پر خوشی اور تفریح کے لئے لوگ اپنے اپنے انداز میں جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ایران میں موسم بہار کی آمد پر نو دن طویل جشن منایا جاتاہے جسے ’نوروز‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں ’درگادیوی‘ کو خوش کرنے کے لئے بسنت کا تہوار منایا جاتا جیسا کہ البیرونی ہندوستان کی علاقائی تاریخ پراپنی مستند تصنیف’کتاب الہند‘ باب ۷۶ میں ’عیدین اور خوشی کے دن‘ کے عنوان کے تحت ہندوستان میں منائے جانے والے مختلف مذہبی تہواروں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتی ہیں : ”اسی مہینہ میں استوائے ربیعی ہوتا ہے جس کا نام ’بسنت‘ ہے۔ اسکے حساب سے اس وقت کا پتہ لگا کر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھلاتے ہیں ، دیوتاوٴں کی نذر چڑھاتے ہیں “ گویا بسنت ہندووٴں کا مذہبی تہوار تھا بلکہ اس کی اہمیت ان کے ہاں ’عید‘ سے کم نہ تھی۔ بسنت اور پتنگ بازی کا اکٹھ بسنت اور پتنگ بازی کے پس منظرسے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ بسنت ہندووٴں کا