کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 41
”اس روز اگر خاوند اپنی بیوی کو از راہِ محبت پھول پیش کرے یا بیوی اپنے سرتاج کے سامنے چند محبت آمیز کلمات کہہ لے تو اس میں آخر حرج کیا ہے؟“[1]
لفنگوں اور اوباشوں کا رویہ
بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اوباش طبقہ کا کردار سیکولر سوچ کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ تہوار دراصل اسی طبقہ کے لوگ مناتے ہیں جب کہ ان من چلوں کی تائید کے لئے سیکولر طبقہ نام نہاد دانشوری پر اتر آتا ہے۔ مزید برآں مغربی تہذیب کی دلدادہ این جی اوز اسلام کے خلاف سازش کے طور پر ان کے ساتھ نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ ان کی تفریح میں لہوولعب اور شور وغل کو مہمیز دیتی ہیں تاکہ ایسی تفریح کے پردہ میں غیر اسلامی کلچر کو پروان چڑھانے کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔
یہ طبقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ اور یہ تہوار کس ’شان و شوکت‘ سے منایا جاتا ہے؟ اس کا مشاہدہ تو بسنت کے شب و روز میں لاہور اور دیگر بڑے شہروں کی پررونق عمارتوں اور وڈیروں کی کوٹھیوں بلکہ ’کوٹھوں ‘ پرکیا جاسکتا ہے جبکہ اس کا دھندلا سا عکس متعلقہ دنوں کے اخبارات اور میگزینوں کے صفحات پر بھی دکھائی دیتا ہے۔
مذکورہ تہوار منانے والا اصلی طبقہ تو یہی ہے اور یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کوئی ان کی عیاشی ودلربائی میں رکاوٹ بنے۔ انہیں اپنے تہوار کے لئے چند دن ہی درکار ہیں ، اس کے علاوہ باقی سارا سال پتنگ بازی پر پابندی رہے، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں لیکن ان کی تفریح کے خاص ایام کوپھیکا کرنے کی کوئی کوشش ہو تو یہ فورا ً حق ِآزادی، تفریح ِطبع وغیرہ کا وِرد کرنے لگتے ہیں اور میڈیا بھی ان کی ہم نوائی میں خم ٹھونک کر کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ ’سرکار‘ کے لئے پہلے ہی خوشی کے چند لمحات محفوظ کردیئے جاتے ہیں ، اس لئے ان کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور ان کی طرف بڑھنے والا ہر قدم روک دیا جاتاہے لہٰذاانہی کا پلڑا بالآخر بھاری ثابت ہوتا ہے۔
تجزیہ وتاریخی پس منظر
بسنت، پتنگ بازی اور ویلنٹائن ڈے کے حامیوں اور مخالفوں کے دلائل و آرا کے تجزیہ کے علاوہ صحیح نقطہ نظر کی توضیح کے لئے ضروری ہے کہ مذکورہ تہواروں کا تاریخی پس منظر بھی بیان کردیا جائے۔
پتنگ سازی اور پتنگ بازی
پتنگ سازی اور پتنگ بازی کا آغاز کب اور کس مقصد کے لئے ہوا؟ اس کے بارے میں
[1] ہمیں خاوند بیوی کی محبت پر اعتراض نہیں ، یقینا یہ پسندیدہ عمل ہے لیکن اظہار محبت کے طور طریقوں کے لئے نام نہاد ’ویلنٹائن ڈے‘ کا انتخاب ٹھیک نہیں۔