کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 40
ایک روایت کے مطابق دس روز تک خود آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس گھر سے کھانا بھیجا گیا۔[1] بسنت کی حمایت کرنے والوں نے جب یہ کہا کہ تہوار اس قوم کی ضرورت ہیں تو انہوں نے سچ کہا۔ قدم قدم پر اس سماج میں رکاوٹیں ہیں ۔ صحت مند تفریحات کا اہتمام نہیں ۔لوگوں کی روزمرہ زندگیاں پھیکی اور بدمزہ ہی نہیں بلکہ بوجھل اور مجروح ہوچکیں … “ (بسنت، کالم نگار ہارون الرشید، روزنامہجنگ، ۲۱/ فروری ۲۰۰۴ء) علاقائی تہواروں کو اسلام کے دامن میں سمونے کی ایک اور دلیل موصوف نے یہ بھی دی ہے ”ایران میں اشاعت ِاسلام کے بعد بھی نو روز کا تہوار منایا جاتا۔ علما اس کی حوصلہ افزائی تو نہ کرتے تھے لیکن کچھ زیادہ حوصلہ شکنی بھی نہیں ۔ ہم صوفیوں کے ایک گروہ کو ان تقریبات میں شریک دیکھتے ہیں ۔ بارہ سو برس ہوتے ہیں ، دشت سوس کے ایک گاوٴں میں احمد اپنے مرشد حسین بن منصور حلاج کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آمد ِبہار کی مبارکباد پیش کرے۔ حسین نے جنہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہونا اور آنے والی تمام صدیوں میں ایک مہکتا ہوا استعارہ بننا تھا، سراُٹھاکر اسے دیکھا اور یہ کہا: ”میرا نوروز ابھی نہیں آیا…“[2] (ایضاً) سیکولر طبقہ کی نمائندگی کرنے والوں کا کہنا ہے : ”یہ صحیح ہے کہ بسنت کے تہوار کے ساتھ بھی بہت سی خرابیاں وابستہ ہوگئی ہیں ، ضرورت ہے کہ ان خرابیوں کی اصلاح ہو، لیکن اس کا یہ طریقہ نہیں کہ ہم بسنت ہی کو غیر اسلامی ثابت کرنے کے لئے دلائل تراشنے لگیں یا اسے غیر مسلم قوم سے متعلق قرار دیں ۔ اس کا صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ ہم لوگوں کو مسلسل متوجہ کرتے رہیں کہ کیسے وہ اس تفریح سے زیادہ سے زیادہ حظ اٹھا سکتے ہیں اور کیسے خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جن کے نتیجے میں انسانی جان بھی جاسکتی ہے۔“ (’بسنت کامسئلہ‘ ازخورشید ندیم، روزنامہ جنگ، ۱۶/فروری ۲۰۰۴ء) ویلنٹائن ڈے کے حوالہ سے اس طبقہ فکر کی رائے یہ ہے :
[1] یہ سخاوت اورانسان دوستی کی اعلیٰ قدر کی مثال ہے اسے لہو ولعب کی بے مقصد رسموں سے آخر کیانسبت ؟ کہاں اعلیٰ کردار کا نمونہ اورکہاں سفلی جذبات کا کھیل ! ع چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک! [2] غالی صوفی حسین بن منصورحلاج کا کردار اہل علم کے ہاں کتنا قابل قدر ہے کہ اس کو نمونہ کے طور پر پیش کیاجائے؟ اہل علم اس سے بخوبی آگاہ ہیں!!