کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 39
لہٰذا اب کسی نئے یاپہلے سے مروّج غیرمسلموں کے تہوار کو اسلام میں داخل کرنا یا از خود کوئی تہوار مقرر کرلینا نہ صرف جائز نہیں بلکہ دین میں اضافہ(یعنی بدعت جاری)کرلینے کے مترادف ہے جبکہدوسری طرف عیدین کی شکل میں جو دو تہوار ہمارے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیے ہیں ان میں بھی خوشی کے جذبات سے مغلوب ہوکر کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جو اسلامی اقدار کے منافی یااسلامی روح کے خلاف ہو خواہ وہ اسراف و تبذیر کی صورت میں ہو یابے ہودگی اور جنسی بے راہ روی کی شکل میں ! اس پس منظر میں مذہبی گروہ کا کہنا ہے کہ ’بسنت‘ ہندوٴانہ تہوار ہے جبکہ ’ویلنٹائن ڈے‘ جنسی بے راہ روی میں ڈوبے عیسائی معاشرے کا من گھڑت تہوار ہے لہٰذا انہیں مناناغیر مسلم اقوام کی مشابہت کرنا ہے خواہ اسے منانے کی شکل من و عن وہی ہو جو اُن اقوام کے ہاں پائی جاتی ہے یا اس سے قدرے مختلف؛ بہرصورت یہ غیر مسلم اقوام کی مشابہت میں داخل ہے، جس کی وعید خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے : (من تشبه بقوم فهو منهم) (ابوداود:۴۰۳۱) ”جس نے کسی (غیر) قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔“ سیکولرنقطہ نظر بسنت اور ویلنٹائن ڈے کے بارے میں سیکولر اور آزاد خیال دانشور طبقہ کی رائے یہ ہے کہ بسنت مذہبی نہیں بلکہ علاقائی تہوار ہے اور ویلنٹائن ڈے خوشیاں اور محبتیں بانٹنے کا دن۔ اسلام علاقائی تہواروں کی مذمت نہیں کرتا بلکہ ”ہر خطے کے کلچر کو اپنے دامن میں سمو لینے کی صلاحیت رکھتا ہے، سوائے ان باتوں کے جن سے انسان کے اخلاقی وجود کو کوئی عارضہ ہوسکتا ہے۔“ (بسنت کا مسئلہ، از خورشید ندیم، روزنامہ جنگ،۱۶/ فروری ۲۰۰۴ء) یہی بات ایک اور ’دانشور‘ نے اس انداز میں کہی ہے : ”موسم بہار کا تہوار منانے میں کیا خرابی ہے؟ کچھ بھی نہیں ۔ اسلام نے مقامی رسوم و رواج کو کبھی پامال کیا اور نہ معصوم مسرتوں کو روندا۔ صرف یہ کہ قرینہ باوقار اور شائستہ ہونا چاہئے۔ ہم مدینہ کے ایک خاندان کو دیکھتے ہیں جہاں دو سو سال تک ایک دل آویز رسم جاری رہی۔ ہر صبح اور ہر شام ایک پکارنے والا پکار کر کہتا: جسے گوشت، روغن اور لذیذ کھانا درکار ہو ہمارے ہاں چلا آئے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد یہ گھرانا مسلمان ہوا اور رسم جاری رہی۔