کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 36
ضرورت محسوس کی مگر جب یہ آیت نازل ہوئی تو پہرہ ختم کردیا گیا۔
(صحیح بخاری/۷۲۳۱و مسنداحمد:۶/۱۴۱ و المصباح المنیر فی تہذیب تفسیر ابن کثیر: ص۳۹۱)
اطاعت باذن اللہ
شریعت کی رو سے جب ایک بات فن حدیث کے مطابق پایہٴ ثبوت تک پہنچ جائے تو پھر غیر مشروط طور پر دل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور اطاعت و اتباع کرنا، قیامت تک آنے والے ہر مکلف مسلمان کے لئے فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے۔ارشادِ باری ہے:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلاَّ لِيطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ﴾(النساء:۶۴)
”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی لئے کہ وہ اللہ کے حکم سے اطاعت کیا جائے۔“
نیز فرمایا: ”اور ہم نے آپ کو (تمام) لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا، جو کوئی رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرے تو اس نے یقینا ا للہ کی اطاعت کی۔“ (النساء:۷۹ ،۸۰)
فرشتوں نے آپ کے پاس گفتگو کرتے ہوئے کہا:
”جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے (جنتی اور جہنمی) لوگوں میں امتیاز قائم کردیا ہے۔ “(صحیح بخاری؛۷۲۸۱)
ارشادِ باری ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (ان کی مخالفت میں کسی اور کی اطاعت کرکے) اپنے اعمال کوضائع مت کرو۔“(محمد:۳۳)
مزید فرمایا: ”اتباع کرو اس چیز کی جو تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری طرف اتاری گئی ہے اور نہ اتباع کرو اس کے علاوہ دوسرے اولیا (چہیتوں )کی۔“ (الاعراف:۷/۳) یعنی اللہ کی نافرمانی میں دوسرے پیاروں کے پیچھے مت چلو۔
ارشادِ نبوی ہے: ”(اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ) نافرمانی میں کسی کی اطاعت(کرنا جائز)نہیں ہے۔(کسی اور کی)اطاعت صرف معروف میں (جائز) ہے۔“(صحیح بخاری؛۷۲۵۷)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پاؤ گے۔“(النور:۵۴)
نیز فرمایا: ”اور تم اس کی اتباع کرو، تاکہ ہدایت پاؤ“ (الاعراف:۱۵۸)