کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 35
چنانچہ ایک بار آپ جماعت کے دوران قراء ت بھول گئے فراغت کے بعد فرمایا:
”(اے اُبی!) تمہیں (لقمہ دینے سے) کس چیز نے روکا؟“ (سنن ابی داود؛۹۰۷)
اسی طرح ایک دفعہ اپنے گھر میں رات کو اٹھے تو مسجد سے ایک صحابی کی تلاوت سن کر فرمایا:
”اللہ اس پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد کراد ی ہے جو مجھے بھول گئی تھی۔“ (صحیح بخاری؛۶۳۳۵)
یعنی ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں تک آیات کو پہنچانا بھول گئے ہوں بلکہ تبلیغ کے بعد بھول واقع ہوئی جس کی ایک و جہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خالق و مخلوق میں فرق کو واضح کردیاجائے۔
٭ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس لحاظ سے بھی معصوم تھے کہ آپ کو اللہ کی راہ میں جب بھی کسی نے ستایا، ناحق ہی ستایا۔ اس میں آپ کا قطعاً کوئی قصور نہ تھا ۔(مثلاً دیکھیں بخاری؛ ۳۸۵۶)
ارشادِ نبوی ہے: ”بلا شبہ میں اللہ کی راہ میں ڈرایا گیا ہوں (اس قدر) کوئی نہیں ڈرایا گیا میں اللہ کی راہ میں تکلیف دیا گیا ہوں (اتنی) تکلیف کوئی نہیں دیا گیا۔“ ( ترمذی؛۲۴۷۲)
آپ کو زیادہ تر ذہنی اذیت پہنچائی گئی جو جسمانی اذیت سے کہیں زیادہ صبر آزما ہوتی ہے۔ مثلاً جب اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹی تہمت تراشی گئی آپ مسلسل ایک ماہ تک سخت پریشانی میں مبتلا رہے۔ اس دوران ایک دن منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا:
”اے مسلمانوں کی جماعت! کون شخص میرا وکیل ِصفائی بنے گا، اس شخص کے جواب میں جس کی ایذا رسانیاں میرے اہل بیت تک پہنچ گئی ہیں ۔ اللہ کی قسم! میں اپنے اہل کی بابت خیر ہی جانتا ہوں اور جس آدمی کا انہوں نے ذکر کیا ہے، اس کی بابت بھی صرف خیر جانتا ہوں وہ میرے اہل پر (ہمیشہ) میرے ساتھ ہی داخل ہوا ہے۔“ (صحیح بخاری؛۴۷۴۹)
مزید برآں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس لحاظ سے بھی معصوم تھے کہ کفار نے کوئی بیسیوں مرتبہ کوشش کی کہ نعوذ باللہ آپ کوقتل کردیا جائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر بار ان کی ہر چال سے بچا لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ کررکھا تھا کہ” آپ لوگوں تک میرا پیغام پہنچائیں ، ان (کی ضرب کاری) سے میں آپ کو بچاؤں گا۔“ (المائدة:۶۷)
چنانچہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آپ نے اپنی قیام گاہ پر رات کے پہرے کی