کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 34
بڑی عجیب و غریب لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تو بہت سے انعامات سے نوازیں مگر مغفرت کے انعام سے محروم رکھیں ۔ باقی رہا آپ کا معصوم ہونا تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خیانت یا غلطی نہیں ہوئی۔ اگر کہیں بشری تقاضوں کی وجہ سے کوئی بھول چوک ہوئی بھی تو وحی الٰہی کی بروقت رہنمائی سے اس کی اصلاح کردی گئی یعنی کسی غلطی کو باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ اس سلسلہ میں اصل یہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ وحی الٰہی کی اطاعت و اتباع کی ہے اور جان بوجھ کر کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی بلکہ فرمایا: ”(ایک جن) میرے ساتھ بھی (مقرر) ہے لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے۔ اس لئے وہ مسلمان ہوچکا ہے لہٰذا مجھے صرف نیکی کا حکم دیتا ہے“ (صحیح مسلم؛۷۱۰۸) مزید فرمایا: ”اللہ کی قسم!میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔“ (بخاری؛۵۰۶۳) نیز فرمایا: ”جب میں ہی نافرمانی کروں تو اور کون اللہ کی اطاعت کرے گا؟ اللہ تو مجھے اہل زمین پر امین جانے اور تم مجھے امین نہ جانو؟“ (صحیح بخاری؛۳۳۴۴) اور فرمایا: ”جب میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟“ (صحیح بخاری؛۶۱۶۳) البتہ بشری تقاضوں کی وجہ سے جب کوئی لغزش ہوئی تو آپ کو اس پر قائم رہنے سے بچا لیا گیا، اصلاح بھی کی گئی، توبہ کی توفیق بھی دی گئی۔ بلکہ بعض دفعہ تو اصلاح کے ساتھ ہی پیشگی معافی کا اعلان کردیا گیا۔“ (التوبہ:۴۳ اور التحریم:۱) کبھی کبھار ہونے والی ان بشری لغزشوں میں نجانے کیا کیا حکمتیں پوشیدہ تھیں ، ایک حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ خالق اور مخلوق میں فرق رہے کیونکہ یہ صرف خالق کی صفت ہے کہ اسی سے علیٰ الاطلاق کبھی غلطی نہیں ہوتی۔ قرآن پاک نے بتایا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا: ﴿لاَ يَضِلُّ رَبِّیْ وَلاَ يَنْسٰی﴾ (طہٰ:۲۰/۵۲) ”میرا ربّ نہ بھٹکتا ہے، نہ بھولتا ہے۔“ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسَٰی إلاَّ مَا شَآءَ اللهُ﴾ (الاعلیٰ:/۶،۷) ”اب ہم تجھے (اچھی طرح قرآن) پڑھا دیں گے پس تو بھولے گا نہیں مگر جو اللہ چاہے۔“