کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 33
کوئی کسی کی زبان کو نہیں پکڑ سکتا (جب تجھے کسی بات کی شرم ہی نہیں رہی تو جو چاہتا ہے کر (بخاری:۳۴۸۴)) ایسے لوگ ہمیشہ اس بات سے قاصر رہے ہیں کہ کسی ایسے قدیم یا جدید، مقدس و مستند علمی ذخیرے کی نشاندہی کریں جس کی قرآن کریم یا حدیث شریف سے بڑھ کر خدمت و حفاظت کی گئی ہو اس لحاظ سے وحی ہدایت کے دونوں سوتے بے مثال و لاجواب ہیں ۔
معصومیت
قرآن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو توبہ و استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (النصر:۳) اور یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں ۔“ (الفتح:۲)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ تو معصوم ہیں ، اس لئے گناہ نہیں کرسکتے لہٰذا سورة الفتح کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی وجہ سے اُمت کے اگلے پچھلے تمام لوگوں کے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں (کنز الایمان)۔ یہ تاویل عیسائی عقائد کا چربہ ہے۔ آیت ِمبارکہ کے الفاظ اس کے متحمل نہیں ہیں ۔
اس کے برعکس بعض لوگوں کا موقف یہ ہے کہ افضل امور کو چھوڑ کر جائز امور کو اختیار کرنا عام لوگوں کے لئے گناہ نہیں ہے مگر ایک نبی کا درجہ چونکہ بہت بڑا ہوتا ہے اس لئے ایسے امور کو ان کے حق میں گناہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی دل کو نہیں لگتی کیونکہ اگر ’جواز‘ شرعی احکام کی ایک قسم ہے تو بیانِ جواز منصب ِرسالت کاایک لازمی تقاضا ہے پھر یہ گناہ کیسے ہوگیا؟
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم بالصواب) کہ توبہ و استغفار بجائے خود ایک بہت بڑی عادت ہے جس میں نہ صرف اللہ کے حضور بندے کے اعترافِ جرم ، احساسِ ندامت، عاجزی و انکساری اور خوف و خشیت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ اللہ کی طرف سے برکت و مغفرت اور درجات کی بلندی بھی حاصل ہوتی ہے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عظیم تر عبادت سے کیسے محروم رہ سکتے تھے؟ یہ بات ہی بڑی گھسی پٹی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عبادت کبھی نہیں کی۔ (والعياذ بالله)
اسی طرح عفو و درگزر کرنا اللہ تعالیٰ کو بڑا پسند ہے (جامع ترمذی؛ ۳۵۱۳) یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو معاف کردے، اسی لئے ہر سچے موٴمن کی ساری تگ و دو کا ماحصل ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح میرا اللہ مجھے معاف کردے اور یہ بات