کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 32
پیغامات پہنچا دیئے ہیں اور اس نے احاطہ کررکھا ہے (وحی کی) ہراس بات کاجو ان(فرشتوں یاانبیاورسل) کے پاس ہے اور اس نے شمار کررکھا ہے ہر چیز کو گن گن کر۔“ (الجن:۲۷ ، ۲۸)
یعنی اللہ تعالیٰ کی وحی پر اور اسے آگے پہنچانے والے فرشتوں اور نبیوں پر اضافی فرشتوں کا سخت پہرا ہوتا ہے تاکہ جب تک وحی اللہ کے بندوں تک پہنچ نہیں جاتی، اسے شیطان کی جھپٹ وغیرہ سے بچایا جاسکے۔ (واللہ اعلم)
نیز فرمایا: ”اور جب ان (کفار) پر ہماری کھلی آیات پڑھی جاتی ہیں (تو) وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی اُمید نہیں رکھتے (قیامت کو نہیں مانتے) کہتے ہیں : اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آ، یا اسی کو بدل ڈال، کہہ دیجئے کہ میرے لئے (ایسا کوئی اختیار نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل ڈالوں ۔“ (یونس:۱۵)
اور فرمایا: ”اور اگر وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کچھ من گھڑت باتیں ہم پر کہہ ڈالتے تو ہم انہیں دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے پھر ان کی رگِ جہان کاٹ ڈالتے۔ پھر تم میں سے کوئی بھی رکاوٹ نہ بن سکتا۔“ (الحاقہ:۴۴تا۴۷)
یعنی اگر ایسا نہیں ہوا اور یقینا ایسا نہیں ہوا، تو پھر مان لو کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جو کچھ سناتے اور بتاتے ہیں وہ ان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں نہیں بلکہ ہماری نازل کردہ وحی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ مبارک اور وضو کے قطرے بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے (صحیح بخاری/۲۷۳۱ عروہ بن مسعود کی گواہی) وہ بھلا آپ کے الفاظ و افعال کیسے ضائع ہونے دیتے۔ جس طرح قرآن پاک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ا خلاق تھا، قرآن و حدیث صحابہ کرام کے اخلاق بن گئے، انہوں نے ان پرعمل پیرا ہو کر اپنے اخلاق و کردار اور فکر و نظر میں پوری طرح سمو لیا اور پھر نہ صرف عمل پیہم کے ذریعے ان کی حفاظت کی بلکہ حفظ و تکرار، تحریر وکتابت، درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور روایت و درایت کے ذریعے بھی اس کی حفاظت کی پھر چراغ سے چراغ جلا اور یہ روایت تابعین سے ہوتی ہوئی تبع تابعین تک اور پھر بعد کے محدثین تک پہنچی۔
وحی الٰہی کے اس مقدس ذخیرے کو اجنبی مداخلت ، ملاوٹ اورآمیزشوں سے بچانے کے لئے بیسیوں بے مثال علوم ایجاد ہوئے۔ اعتراض کرنے والے اعتراض تو کرتے ہیں کیونکہ