کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 31
گویا آپ کے فیصلے محض آپ کی صوابدید کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی رہنمائی کے مطابق نافذ ہوتے تھے، اسی لئے آپ کا ہر فیصلہ واجب الاتباع ہے۔ یہ اعزاز کسی امتی حاکم، جج، مفتی یا مجتہد کونہیں دیا جاسکتا کیونکہ کسی اُمتی پرکوئی وحی نہیں آتی لہٰذا اس کا ہر اجتہاد حرفِ آخر ہوسکتا ہے نہ واجب الاتباع۔ چہ جائیکہ اس کے اجتہادات پراپنا مذہب استوار کیا جائے یا فقہ کے نام پر لوگوں کو ان پرقائم رہنے کی پرزور دعوت دی جائے۔ بہرحال احتیاط اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ کسی بھی اختلافی مسئلہ میں کسی مخصوص فقہ کے اجتہادات پر کلی انحصار کرنے کی پالیسی ترک کرکے دل و دماغ کو وسعت دی جائے اور فقہی نقطہ ہائے نظر سے بھی استفادہ کیا جائے تاکہ ہدایت اپنی دلیل سمیت واضح ہوجائے۔ وحی ہدایت کی حفاظت مذکورہ تصریحات سے واضح ہوگیا کہ وحی ہدایت کی ہر صورت ، منجانب اللہ ہے۔ اب یہ بھی جان لیں کہ وحی الٰہی کی یہ صورتیں الحمدللہ پوری طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہیں ۔ ارشادِ باری ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّالَه لَحَافِظُوْنَ﴾(الحجر:۹) ”یقینا ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔“ مزید فرمایا: ”پھر یقینا ہم پر ہی ہے اس کا بیان۔“ (القیامہ:۱۹) یعنی یہ کام ہمارے ذمے رہا کہ ا․آپ کی زبانِ اقدس پر قرآنِ پاک کی تلاوت آسان کریں ۔ ب․ اپنے کلام کی وضاحت کریں ۔ ج․ پھر اس وضاحت کی حفاظت کا بندوبست کریں ۔ اور پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے یہ بندوبست فرمایا اور خوب فرمایا۔ارشادِ باری ہے: ”اور بے شک یہ (قرآن) ربّ العالمین کانازل کردہ ہے جسے روح امین (ایک امانتدار فرشتہ جبریل علیہ السلام ) لے کر نازل ہوئے، تیرے دل پر، تاکہ تو ڈرانے والوں میں (شامل) ہوجائے۔“ (الشعراء:۱۹۲تا۱۹۴) مزید فرمایا: ”پس شان تو یہ ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) چلاتا ہے اس کے آگے پیچھے پہریدار تاکہ (دیکھ کر بھی) جان لے کہ انہوں نے (فرشتوں نے انبیا تک اور انبیا نے لوگوں تک)اپنے ربّ کے