کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 30
مزید فرمایا: ”اس غالب مہربان پر بھروسہ کر جو تجھے دیکھتا ہے جب تو اُٹھتا ہے اور سجدہ کرنے والوں میں تیری بدلتی حالتوں کو بھی دیکھتا ہے۔“ (الشعراء:۲۱۷تا ۲۱۹) ہجرتِ مدینہ کے بعد جب مسجد ِاقصیٰ کو قبلہ بنایا گیا تو آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ ہی کو مستقل قبلہ بنا دیا جائے یہ آپ کی خواہش تھی۔ آپ نے کئی دفعہ آسمان کی طرف دیکھا گویا وحی کا انتظار فرما رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کی خواہش کے مطابق خانہ کعبہ کومستقل قبلہ بنا دیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے رہے ہیں : فرمایا:﴿قَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِیْ السَّمَآءِ﴾ (البقرة:۱۴۴) ”یقینا ہم دیکھتے ہیں آسمان میں تیرے چہرے کا پھرنا۔“ ایک نابینا شخص نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے مسجد تک لانے والا کوئی نہیں ، اس نے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت چاہی آپ نے رخصت دے دی ۔ جب وہ مڑ کر واپس جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ’کیا اذان سنتے ہو؟‘ اس نے کہا:’ہاں ‘ تو فرمایا: ”تو پھر نماز میں حاضر ہو۔“ (صحیح مسلم ؛ ۱۴۸۶) جنگ ِاُحد کے بعد جب آپ نے نما زکے دوران قنوتِ نازلہ میں بعض مخصوص افراد کانام لے کر بددعا فرمائی تو آپ کو روک دیا گیا: (آل عمران:۱۲۸ و صحیح بخاری؛۴۰۶۹) جب آپ نے جنگ ِتبوک کے موقع پر بعض لوگوں کے عذر سن کر انہیں پیچھے رہنے کی اجازت دے دی تو تنبیہ آگئی: ”اللہ نے آپ سے درگزر کیا، آپ نے انہیں اجازت کیوں دی؟“ (التوبہ: ۴۳) دراصل ایک نبی اور اُمتی کی اجتہادی خطا میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی نبی کی اجتہادی خطا کو باقی نہیں رہنے دیتی بلکہ اصلاح کردیتی ہے تاکہ ایک ایسی چیز دین نہ بننے پائے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں جبکہ امتی کی اجتہادی خطا بعض دفعہ اس کے پیرو کاروں میں کچھ یوں رواج پا جاتی ہے کہ اس کی محض نشاندہی کی جائے تو گستاخی کا فتویٰ لگ جاتا ہے۔ ارشادِ باری ہے: ﴿إنَّا أنْزَلْنَا الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بينالنَّاسِ بِمَا أرَاکَ اللهُ﴾ ”یقینا ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ (سچی) کتاب اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے درمیان فیصلہ کردے اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے تجھے دکھائی ہے۔“(النساء:۱۰۵)