کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 3
اَقدار زوال کا شکار ہوگئی ہیں ،مرد اور عورت کے فرائض اور دائرہ کار آپس میں خلط ملط ہوگئے ہیں ۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تحریک ِآزادیٴ نسواں کے زیادہ تر مطالبات مساوی تعلیم کے مواقع اور عورتوں کو ووٹ کے حقوق دینے تک ہی محدود تھے۔ لیکن آج مغرب میں مساوی حقوق کا نعرہ ایک بہت بڑے فتنہ کا روپ دھار چکا ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام دائروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
امریکہ اور یورپ نے گذشتہ دو صدیوں کے درمیان جو محیرالعقول سائنسی ترقی کی ہے، اس میں عورتوں کے حصے کو اَصل تناسب سے کہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محدود دائروں میں عورتوں کے کردار اور حصہ سے انکار ممکن نہیں ہے۔ البتہ مغربی معاشرے کی اجتماعی ترقی کامعروضی جائزہ لیا جائے تو تحریک ِآزادی ٴ نسواں کے علمبرداروں کے دعوے مبالغہ انگیز نظر آتے ہیں ۔ مغرب کی مادّی اور سائنسی ترقی کے پس پشت کار فرما دیگر عوامل مثلاً جارحانہ مسابقت، مادّی ذرائع پر قبضہ کی ہوس، طبیعاتی قوانین کو جاننے کا جنون، مغربی استعمار کو نو آبادیات پر مسلط رکھنے کا عزم، ایشیا اور افریقہ کی منڈیوں پر قبضے کی جدوجہد، مغرب کی نشاةِ ثانیہ کے بعد مغربی معاشرے میں علوم و فنون میں آگے بڑھنے کا جذبہ، سرمایہ دارانہ نظام میں کام کی بنیاد پر ترقی کی ضمانت، مندی کی معیشت وغیرہ جیسے عوامل نے جو کردار ادا کیا ہے ، اس کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
قومی ترقی کے لئے کیا عورتوں کا ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ناگزیرہے؟ اس اہم سوال کا جواب ’ہاں ‘ میں دینا بے حد مشکل ہے۔ اگر عورت اپنے مخصوص خاندانی فرائض کو نظر انداز کرکے زندگی کے ہر میدان میں شرکت کرے گی تو خاندانی ادارہ عدمِ استحکام کا شکار ہوجائے گا اور خاندانی ادارے کے عدمِ استحکام میں آنے کے منفی اَثرات زندگی کے دیگر شعبہ جات پر بھی پڑیں گے۔ مغرب میں یہ نتائج رونما ہوچکے ہیں !!
اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ان میں تحریک ِآزادیٴ نسواں (Feminism) کا فتنہ اپنے وسیع اثرات اور تباہ کاریوں کی بنا پر سب سے بڑا فتنہ ہے۔ مغرب میں عورتوں کو زندگی کے مختلف شعبہ جات میں جس تناسب اور شرح سے شریک کر