کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 28
ظاہر کردیے جائیں تو تمہیں تکلیف دیں اور اگر تم ان کی بابت سوال کرو گے جبکہ قرآن اُتارا جارہا ہے تو وہ تمہارے لئے ظاہر کردی جائیں گی۔“(المائدة:۵/۱۰۱)
ایک د فعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے لہٰذا تم حج کرو۔“ اس پر ایک آدمی نے پوچھا: ”کیا ہر سال اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )؟“ آپ خاموش رہے۔ حتیٰ کہ اس نے تین دفعہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا:
”اگر میں ’ہاں ‘ کہہ دوں تو یہ (ہر سال ہی) واجب ہوجائے اور تم اس کی طاقت نہ رکھو۔“
ٍٍپھر فرمایا:”جب تک میں تمہیں (تمہارے حال پر ) چھوڑ ے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو (خواہ مخواہ سوال نہ کرو) تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے نبیوں کے پاس آکر بکثرت سوال کرتے تھے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے سرانجام دو اور جب کسی چیز سے منع کردوں تو اسے چھوڑ دو۔“ (صحیح مسلم؛۳۲۵۷ )
مزید فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے تم پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں ، انہیں ضائع نہ کرو، کچھ حدیں مقرر کی ہیں انہیں نہ پھلانگو، کچھ چیزوں کو حرمت بخشی ہے انہیں پامال نہ کرو اور کسی بھول کے بغیر (محض) تم پر شفقت کرتے ہوئے کچھ چیزوں کی بابت خاموشی اختیار کی ہے پس ا ن کے متعلق سوال مت کرو۔ (المصباح المنیر فی تہذیب ِتفسیر ابن کثیر؛المائدة:۱۰۱)
نیز فرمایا: ”یقینا وہ شخص جرم کے لحاظ سے سب مسلمانوں سے بڑھ کر ہے جس نے ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہیں تھی مگر اسکے سوال کی و جہ سے وہ حرام کردی گئی۔“( بخاری؛۷۲۸۹)
(6)سچے خواب:انبیاء و رسل علیہم السلام کو جو خواب آتے ہیں وہ اللہ کی وحی ہوتے ہیں ۔غالباً اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اُنہیں جگایا نہیں کرتے تھے (مبادا کوئی خواب دیکھ رہے ہوں )۔ (صحیح بخاری؛۳۵۷۱) اور یہ بھی عین حقیقت ہے کہ انبیاء ورسل علیہم السلام جب نیند فرماتے تو ان کی صرف آنکھیں سوتیں جب کہ دل بیدار رہتے (صحیح بخاری؛ ۳۵۷۰) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں عالم خواب میں عالم بیداری کے بدلتے حالات کا پتہ چل جاتا تھا ورنہ نیند کے دوران آپ کی نماز قضا نہ ہوتی۔ (صحیح بخاری؛۳۵۷۱)
قرآنِ پاک میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب ذکر ہوا ہے جس میں وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے تھے۔ بیٹے نے سنا تو کہا: ابا جان! آپ (اللہ کی طرف