کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 27
سیدہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟“ سعد نے کہا: ”جی ہاں ، کیوں نہیں ؟“ فرمایا: ”یہی (قرآن) اللہ کے نبی کا اخلاق تھا۔“ (صحیح مسلم؛۲۸۳۹) (5)تقریری احادیث:’تقریر‘ کامعنی ہے برقرار رکھنا اور تقریری احادیث سے مراد وہ تمام باتیں اور واقعات ہیں جو آپ کی حیاتِ طیبہ کے دوران نزولِ وحی کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں ظاہر ہوئے مگر وحی الٰہی نے انہیں ان سے روکا، نہ نفرت دلائی۔ بلکہ خاموشی ا ختیار کرکے انہیں برقرار رکھا یعنی سند ِجواز مہیا کردی کیونکہ آپ کسی مسلمان کے ہاتھوں ناجائز کام ہوتا دیکھ کر خاموش نہیں رہتے تھے۔ ارشادِ باری ہے: ﴿ياَيهاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَإنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه وَاللهُ يعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إنَّ اللهَ لاَ يهدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِيْنَ﴾ (المائدة :۶۷) ”اے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے، اسے آگے پہنچا دیں ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کے (اللہ کے) پیغامات نہ پہنچائے اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے بچائے گا۔ یقینا اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک کیسے پہنچایا؟ ذرا تصور کریں ، مکہ کی بستی جو کفر و شرک کا گڑھ تھی، جہاں کے چوہدری اور سردار بدی کے علمبردار تھے، اس بستی میں ایک آدمی تن تنہا اٹھتا ہے اور بستی والوں کے عقائد کو ترغیب و ترہیب کے ساتھ چیلنج کرتا ہے۔ حالانکہ کسی کا عقیدہ چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے مگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سرکش بھڑوں کے عین درمیان میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے۔ طائف کے سرداروں سے بنفس نفیس ملے مگر جواب میں سنگباری ملی، جوتوں میں خون جم ہوگیا۔ کیا جو شخص کسی ملامت کی پرواہ کئے بغیر بازاروں ، میلوں اور حاجیوں کی مختلف ٹولیوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتا ہو کیا اس کی بابت یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی موقعہ پر اپنے ہی کسی پیرو کار کے ہاتھوں ایک ناجائز کام ہوتے دیکھا مگر اس سے روکا ، نہ نفرت دلائی؟ ممکن ہی نہیں توپھر ماننا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس بات یا کام کی بابت خاموشی اختیار کریں وہ اللہ کے ہاں جائز ہوتاہے۔ارشاد ِربانی ہے: ”اے ایمان والو! ایسی چیزوں کی بابت سوال نہ کرو کہ اگر (ان کے حقائق) تمہارے لئے