کتاب: محدث شمارہ 278 - صفحہ 25
پیغام پہنچا دیا، امانت اداکردی، اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔“ (سنن ابی داود؛ ۱۹۰۵) الغرض نبی اور رسول اُس مقدس ہستی کو کہتے ہیں جسے اللہ ربّ العٰلمین نے پسند کرلیا ہو (الاعراف:۱۴۴ ، ۱۴۵) تاکہ اس کے ذریعے اپنا پیغام (کتاب و حکمت) اپنے بندوں تک پہنچائے۔ ماننے والوں کو جنت کی بشارت دے اور نہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرائے، لوگوں میں پائے جانے والے اختلافات کا فیصلہ کرے اور انہیں راہِ ہدایت سے آگاہ کرے۔ (البقرة:۲۱۳) اس اہم ترین مشن کے لئے اللہ تعالیٰ جس ہستی کو پسند کرلیں ، اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ وہی سب سے زیادہ جانتا ہے کہ کون اس منصب کے تقاضوں پر پورا اُترے گا (الانعام:۶/۱۲۴) اور اس بات کا فیصلہ بھی صرف اللہ تعالیٰ کرتے ہیں کہ کس نبی کی طرف کب اور کیا وحی بھیجنی ہے۔(صحیح بخاری؛۳۲۱۸) اللہ جس خبر سے اپنے نبی کو آگاہ کردے، اُسے اسی خبر کا پتہ چلتا ہے اور جس خبر سے آگاہ نہ کرے، اسے نبی اپنے طور پر معلوم نہیں کرسکتا۔ارشادِ باری ہے: ”کہہ دیجئے! میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو، آیا وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لئے کوئی مدت مقرر کرے گا۔ (الجن: ۲۵) یہ وہ حقیقت ہے جس کی مثالوں سے کتاب و سنت کے مقدس اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ وحی ہدایت بلا شبہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی پسند و ناپسند کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہوا جس کی درج ذیل شکلیں تھیں : قرآن پاک ، قدسی احادیث،قولی احادیث،فعلی احادیث ،تقریری احادیث، آپ کے خواب اور آپ کے اجتہادات جن کی وحی الٰہی نے حمایت یا اصلاح کی۔ (1) قرآن پاک:قرآن پاک دراصل اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو جبریل علیہ السلام کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے جسے نماز وغیرہ میں پڑھنا عبادت ہے۔ جس کی مثل لانے کا اہل عرب کو چیلنج دیا گیا مگر وہ ہمیشہ اس سے عاجز رہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ آج تک اس میں زیر زبر کا فرق نہیں ڈالا جاسکا ۔ ہر دور میں دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں انسان اسے پڑھتے پڑھاتے اور یاد کرتے آئے ہیں اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ